میں نجانے کب سے اس اندھیری نگری میں بیٹھی تھی اپنے وجود ، جنس ،شکل و صورت ، گردو پیش اور موسم کی کروٹوں سے بالکل بے خبر اچانک تیز ہوا کی مجھے پے در پے تھپیڑوں نے جھنجھوڑا میں گھبرا کر ان تاریک راستوں میں چھوٹے چھوٹے متواتر قدم اٹھانے لگی۔ باریک پگڈنڈی پر میر ے اٹھائے جانے والے قدم مجھے کس منزل کی کی سمت لے جا رہے تھے۔میں قطعا نہیں جانتی تھی۔ اچانک اس تیرگی میں مجھے دور سے آتی روشنی کی لکیر محسوس ہوئی۔میر ا وجود اس روشنی کی لکیرکی طرف اک طلسماتی طاقت کے تحت کھنچنے لگا اچانک ایک مٹی کی ریل گاڑی میرے قریب آکر رکی پگڈنڈی نے میرے قدم چھوڑ دیے میں نے محسوس کیا کہ اب میرے قدم ریل گاڑی کے فرش کی سطح پر تھے ریل گاڑی میں داخل ہوتے ہی تیز روشنی سے میری آنکھیں چندیانے لگیں اور اس چبھن سے چند قطرے میرے چہرے کو نم کر گئے مجھے رونے کے سوا کچھ سمجھ نہ آیا آنسوئوں نے گاڑی کے اندر کے منظر کو دھندلا دیا ۔ آنکھیں بار بار جھپکنے کے بعد مجھے گاڑی میں ایک اور وجود دکھائی دیا ۔ میری آنکھوں کی طرح اس وجود کی آنکھیں بھی نم تھیں میں گھبرا کر اس دوسرے وجود کے ساتھ لپٹ گئی۔ اس وجود کے قریب جاتے ہی تیز ہوائیں تھمنے سی لگیں اور گہری طمانیت کے احساس نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا ۔ اندھیرا چھٹنے لگا دھوپ چھائوں کی سی کیفیت تھی۔ ہر منظر نیا تھا مسلسل ریل گاڑی کے ڈبے کے ہر منظر سے مجھے انسیت سی ہونے لگی ۔
کچھ عرصہ گزرا تو مجھے احسا س ہوا کہ اس ریل گاڑی میں اور بھی بہت سے وجود ہیں میں دھیرے دھیرے سب سے مانوس ہونے لگی ۔ کچھ وجود تو میرے جیسے ہی تھے اور کچھ یکسر مختلف ۔ کچھ میں گہری اپنائیت اور کشش کا احساس تھا جب کہ کچھ ساتھ سفر کرنے کے باوجود بھی بیگانہ ہی رہے ۔ گاڑی ایک ہی رفتار کے ساتھ َان دیکھی منزل کی جانب رواں تھی۔ گاڑی کی ہر کھڑکی سے جھانکنے والے مسافر کے لیے باہر کا منظر جدا تھا۔ کسی کھڑکی کے باہر ڈھلتی شام کا منظر تھا اور کسی کھڑکی کے باہر اجلا چمکدار دن ، کہیں کالی گھٹائیں اور کہیں گہری دھند کوئی مسافر ان مناظرسے محظوظ ہوتا اور کوئی پریشان حال جب کہ کوئی مطمئن اور کوئی بے چین اور مضطرب دکھائی دیتا ۔ کوئی مسافر ایسا تھا جو تھک کر ان مناظر سے لاتعلق ہو کر اپنی ہی گود میں سر جھکائے بیٹھا تھا مگر جو لاتعلق ہو گیا تھا وہ پھر سے ان اندھیروں میں ڈوبنے لگا تھا جس سے اس کا تعلق اس ریل گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے تھا۔ ریل گاڑی اپنی پٹڑی بدلتی ، ہچکولے کھاتی راستے کے نشیب و فراز طے کرتی بہر حال آگے بڑھتی جا رہی تھی ۔
میں نے اپنا عکس سب سے پہلے اس وجود کی آنکھوں میں دیکھا جس نے مجھے اس ریل گاڑی میں سوار ہوتے ہی اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ مجھ پر اپنی جنس کا انکشاف ہوا ریل گاڑی کے آگے بڑھنے کے انداز میں تبدیلی آتی رہی اور میرا وجود ساتھ اپنی ساخت بدلتا رہا۔ کھڑکی سے باہر کے مناظر بھی جلد جلد بدلتے رہے ۔ اور ریل گاڑی میں بیٹھے مسافر بھی گھٹتے بڑھتے اور اترتے چڑھتے رہے اب مجھ سے میری ملاقات اکثر رہنے لگی میں خود کو دریافت کرنے لگی۔ اور خود سے مانوس بھی ہونے لگی۔ ایک دن کھڑکی کے باہر کا منظر دھند میں لپٹا تھا۔ میں نے نیم تاریک ریل کے ڈبے میں جھانکا وہ مہر باں وجود مجھے کہیں دکھائی نہ دیا میں وحشت زدہ ہو کر ادھر ادھر اس وجود کو تلاشنے لگی۔ میں نے دھند میں لپٹے اس منظر کو دیکھنے کے لیے کھڑکی سے ایک بار پھر سے جھانکا وہ مہر باں وجود نجانے کب چپکے سے ریل گاڑی سے اتر چکا تھا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاکی وجود ریل گاڑی کے خاکی پہیوں تلے روندا گیا اور اس کی خاک ریل گاڑی کے پہیوں سے اٹھتی گرد میں تحلیل ہونے لگی یک لخت میرا جی چاہا کہ میں اس رواںدواں ریل گاڑی سے کود جائوں مگر میں زیادہ دیر تک پیچھے نہیں دیکھ پائی کہ بہر حال مجھے آگے دیکھنا تھا ۔
اب پھر سے مجھے کچھ چھوٹے بڑے وجود اپنے آس پاس سفر کرتے دکھائی دینے لگے ۔میں نے ایک بارپھر کھڑکی سے جھانک کردیکھا گویا رنگ و بو اور تتلیوں کا اک شہر آباد تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ گاڑی نے اک بار پھر پٹڑی بدلی ہے مجھے ایک ننھا وجود ریل گاڑی کے داخلی دروازے پر اشک بار آنکھوں کے ساتھ اپنے گردو پیش سے بالکل بے خبر حیراں، پریشاں کھڑا دکھائی دیا۔ پھر وہ اک طلسماتی طاقت کے تحت میری جانب کھنچتا چلا آیا اور میں نے اسے اپنی آغوش میں بھر لیا۔ وہ ننھا وجود میری گود میں تھا اور وہ تمام مناظر میری کھڑکی ہی سے دیکھتا تھا۔ و ہ میری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھا کرتا اور میں اس کے وجود میں سایہ ۔
کھڑکی کے باہر کا منظر ڈھلنے لگا شام پھیلنے لگی۔میرا وجود چھوٹا اور میرا سایہ بڑا ہو کر مجھ سے جدا ہونے لگا۔ میں ایک بار پھر سے ویسی ہی طلسماتی طاقت کے نر غے میں تھی کب میرے قدموں کو ریل گاڑی کے فرش کی سطح نے دھکیل کر پھر سے ایک پگڈنڈی پر جا دھکیلا ۔ میں نے اچٹتی سی اک الوداعی نگا ہ ریل گاڑی میں بیٹھے مسافروں پر ڈالی۔ مگر میرا خاکی وجود ریل گاڑی کے پہیوں تلے روندا جانے لگا۔
اور مٹی کا یہ سفر مٹی کے ساتھ ہی ملنے لگا۔
اب میرا احساس پھر سے انجانے راستوں پر حیران کسی انجانی روشنی کا منتظرہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔