مہا بھارت کے بڑے سورمائوں میں ایک سورما وہ تھا جس کا نام کرن تھا۔ اس کے متعلق یہ روایت مشہور تھی کہ وہ ماں کے پیٹ سے تیر تفنگ سے لیس پیدا ہوا تھا۔ شہزاد احمد کے سلسلہ میں بس ذرا سی کسر رہ گئی ورنہ اس وقت ہمیں یہی لکھنا تھا کہ شہزاد ماں کے پیٹ سے عالم فاضل پیدا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بچپن، لڑکپن کا جو احوال ہمیں کسی بھلے وقت میں سنایا تھا اس سے ہم نے یہی نتیجہ نکالا کہ اس ہونہار پوت کے پائوں پالنے ہی میں نظر آ گئے تھے۔ شاعری شاید گھٹی میں پڑی تھی کہ ماں کی گود سے اتر کر شاعری میں غوں غاں شروع کر دی۔ یہ ہونا ہی تھا۔ جو ماں گلستان بوستان میں رواں ہو‘ اس کی گود کے پالے سے اور کیا توقع کی جا سکتی تھی۔
اور ہاں اس وقت کے امرتسر کو مت بھولیے۔ ان دنوں ہماری دنیائے ادب کے کیسے کیسے نابغے اس شہر میں جمع ہو گئے تھے اور جس گھر میں شہزاد نے جنم لیا تھا اس کے برابر ہی ایک گھر تھا جہاں حکیم ظہیرالدین رہتے تھے۔ حکیم صاحب امیر مینائی کے شاگرد تھے اور ان کی بیٹی جو تھی وہ بھی اپنی جگہ علامہ ہی ہو گی۔ اس نے شہزاد کو بچپن ہی میں مولانا محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ پلا دی۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ ادب سے یہ میرا پہلا باقاعدہ رابطہ تھا۔ اس کے بعد اس نوخیز کے ہاتھوں میں ’مہتاب داغ‘ آ گئی‘ اسے پڑھ ڈالا۔ بس پھر چل سو چل امیر مینائی‘ فانی‘ اصغر اور جانے کون کون سے شاعر کو پڑھ ڈالا۔ ارد گرد جو شاعر نظر آئے ان میں سب سے بڑھ کر تھے سیف الدین سیف‘ ظہیر کاشمیری‘ احمد راہی۔ جس کی ابتدا ایسی ہو اس کی انتہا کیسی ہو گی۔ خیر وہ تو ہماری آنکھوں دیکھی ہے۔
امرتسر میں تو بس ہائی اسکول تک کی تعلیم حاصل کی تھی۔ میٹرک شاید پاس کر لیا تھا کہ تقسیم کا واقعہ گزر گیا اور امرتسر اس زور سے بھڑکا کہ مسلمانوں پر وہ زمین دفعتاً تنگ ہو گئی۔ یہ لوگ قافلہ در قافلہ لاہور پہنچے۔ کسی قافلے میں ایک نوخیز شہزاد احمد نام کا بھی تھا۔شہزاد نے لاہور آ کر گورنمنٹ کالج میں قدم رکھا اور فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا۔ وہاں پہلے سے ایک امرتسری علامہ بیٹھا تھا۔ مظفر علی سید‘ مظفر وہاں اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں تھا۔ نوخیزوں کو گود لینا اس کا مشغلہ تھا۔ اس نے فوراً ہی شہزاد کو گود لے لیا۔ مگر شہزاد تو ہائی اسکول کے زمانے ہی میں بالغ ہو گیا تھا۔ وہ کتنے دنوں مظفر کی انگلی پکڑ کر چلتا۔ اس جوہر قابل کو تو مولانا چراغ حسن حسرت نے تاڑ لیا تھا۔ اس کی غزلیں’ امروز‘ کے قسمت علمی و ادبی میں شایع ہونے لگی تھیں۔ اور ’نرگس‘ نام کے رسالہ نے ان ہی دنوں دھوم سے جو اپنا ایک نظم نمبر نکالا تھا اس میں شہزاد کی نظمیں بھی شامل تھیں۔ شہزاد کا کہنا تھا کہ میں نے آٹھویں کلاس تک جو کلام لکھا تھا یہ نظمیں انھیں میں سے تھیں۔ بہرحال ہم نے شہزاد کو اس وقت دیکھا جب وہ مظفر کی انگلی پکڑ کر ٹی ہائوس میں داخل ہوا تھا۔ بس اسی وقت سے اس عزیز سے یاداللہ چلی آ رہی تھی۔
تو یوں سمجھئے کہ تقسیم کے عبوری زمانے میں جن لکھنے والوں نے آنکھ کھولی تھی شہزاد بھی انھیں میں سے تھے۔ کہہ لیجیے کہ پاکستان کی پہلی ادبی نسل کا فرزند۔
ابھی جو ذکر ہوا کہ لڑکپن ہی میں شہزاد نے کن کن شاعروں کو پڑھا۔ داغ‘ فانی‘ اصغر گونڈوی‘ امیر مینائی اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ روایتی غزل میں اس شاعر کا جوہر آشکار ہوتا مگر شہزاد نے تو جلدی ہی پر پرزے نکال لیے۔ وہ فضا ہی ایسی تھی۔ ناصر کاظمی کی غزل کا ان دنوں چرچا تھا جس کے متعلق کہا گیا کہ یہ نئی غزل ہے۔ شہزاد کی غزل نے بھی نئی غزل والا رنگ پکڑ لیا مگر یہ غزل جلد ہی ناصر کی نئی غزل سے آگے نکل کر کچھ زیادہ ہی نئی ہو گئی۔ ایسی نئی کہ اینٹی غزل کہلانے لگی یعنی غزل دشمن غزل‘ رنگ تغزل غائب‘ نئے زمانے کے اشارے کنائے اس غزل میں راہ پا گئے۔ مثلاً
دو دن بھی کھل کے بات نہ شہزاد ہو سکی
دو سال ایک ساتھ رہے ہم کلاس میں
دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر
آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں
ارے ہاں شہزاد نے ٹی ہائوس میں داخلہ اس رنگ سے لیا کہ ٹی ہائوس کے برابر جو سائیکلوں کی ایک دکان تھی ایگل سائیکل اور جس کے کرتا دھرتا تھے شہزاد کے امرتسری دوست ندیم وہیں شہزاد نے بھی ڈیرا ڈال دیا۔ وہاں سے نکل کر کہاں کہاں گئے۔ پھر ہم نے انھیں پکی پکائی روٹی کے دفتر میں مصروف دیکھا۔ایسے نت نئے پیشوں میں اس عزیز کو مصروف دیکھ کر ہم نے اس عزیز سے کہا ’’یہ یار احباب تمھارے ادلتے بدلتے پیشوں پر کیوں خندہ زن رہتے ہیں۔ اب تم روٹی پلانٹ میں نظر آ رہے ہو اور یار لوگ پکی پکائی روٹی اور تمہاری پکی غزل کے درمیان رشتہ تلاش کر رہے ہیں۔
شہزاد نے جواب دیا کہ میں اگر پیشے بدلتا رہتا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں زندگی کو مختلف طریقوں سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ ویسے مجھے سب سے زیادہ گھٹن کا احساس ان دنوں ہوا تھا جب میں نے پی ٹی وی میں اور اس کے بعد پاکستان کونسل میں ملازمت کی تھی۔
خیر اپنے آخری ایام میں وہ مجلس ترقی ادب میں پہنچے۔ اور شاید اب انھیں ایسا فریضہ سونپا گیا تھا جو ان کے مزاج کے عین مطابق تھا۔ ارے ہاں ہم ان کی شاعری پر بات کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی تو بتانا ضروری ہے کہ شہزاد خالی شاعر نہیں تھے۔ اور شاعر بھی وہ اس طرز کے نہیں تھے جو صرف اور محض اپنے تخلیقی جوہر پر انحصار کرتے ہیں اور اس لمحہ کا انتظار کرتے ہیں جب ان پر کوئی شعری مضمون وارد ہو۔ شہزاد احمد اس کے قائل تھے کہ تخلیقی جوہر برحق مگر علمی ادبی مطالعہ سے اس جوہر کی آبیاری بھی ضروری ہے۔ اور شہزاد نے اپنے مطالعے کا سلسلہ اتنا وسیع کیا تھا کہ کتنے علوم اس کی زد میں تھے۔ جدید نفسیات‘ فلسفہ‘ نئے سائنسی علوم‘ اس ذیل میں کتنی مستند علمی کتابوں کے انھوں نے انگریزی سے اردو میں ترجمے کیے۔ پھر خود ان علوم اور علمی شخصیتوں کے بارے میں تعارفی کتابیں لکھیں۔ فرائڈ، یونگ، ایڈلر ایسے جدید ماہرین نفسیات کے تعارف میں انھوں نے کتنی کتابیں لکھ ڈالیں۔
ارے ہماری دنیائے ادب میں ایسے لکھنے والے کتنے ہیں جنھوں نے علمی مطالعہ پر اتنا زور دیا ہو۔ اس حساب سے دیکھئے تو شہزاد ہماری اس شعری روایت کے ذیل میں آتے ہیں جسے اقبال نے پروان چڑھایا تھا۔ تو شہزاد کی ہمارے بیچ سے رخصتی خالی ایک شاعر کی رخصتی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک ذہن رسا کی رخصتی ہے۔ ایسے ذہن کی جو اردو میں نئی علمی روایت کو فروغ دینے کے کام میں بڑی یکسوئی کے ساتھ لگا ہوا تھا ؎ ایک روشن دماغ تھا نہ رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔