حالات بدلتے ہی وہ ذات دکھائے گا
کم بخت فریبی ہے اوقات دکھائے گا
دکھ درد چھپا لے تُو پلکوں کے غلافوں میں
کس کس کو ان اشکوں کی برسات دکھائے گا
ہو چاند گھٹاؤں میں اور یار سرہانے ہو
یارب مجھے کب ایسی تو رات دکھائے گا
کوٹھی کی بجائے تو کٹیا ہی عطا کر دے
کب تک ہمیں تاروں کی تُو رات دکھائے گا
شاطر ہے بساط اس کی مہرے بھی سبھی ماہر
بس آنکھ جھپکتے ہی شہ مات دکھائے گا
فاروقؔ یقیں کر لو تعبیر اُلٹ ہو گی
وہ خواب ترقی کے دن رات دکھائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔