ترقی پسند تحریک کے بعد جو افسانہ نگار اور ناول نگار اردو فکشن کی دنیا میں ابھرے ان میں جوگندر پال ایک بہت ہی اہم نام ہے۔ان کے ہاں ادب کی کسی ایک لہر سے لپٹ رہنے کا رجحان نہیں ہے۔وہ ادب کی آتی جاتی تمام لہروں کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ان سے لطف اٹھاتے ہیں۔سوچ میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر سوچ اور تخلیق کے سنگم پر ان کی کہانیاں جنم لینے لگتی ہیں۔جوگندر پال نے ترقی پسند روایت کو رد نہیں کیا لیکن اس کی لکیر کے فقیر بھی نہیں بنے۔اسی طرح جدید افسانے کے نام پر انہوں نے نہ تو جدیدیت کی بے راہروی کو قبول کیا اور نہ ہی اس کے مثبت اثرات سے انکار کیا۔اس لحاظ سے ان کے ہاں کسی ایک اندازِ نظر کو تلاش کرنا بے معنی ہو جاتا ہے۔ان کے افسانوں اور ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ خالصتاََ جوگندر پال کے باطن سے رچے ہوئے تخلیق ہوئے ہیں۔ان پر ان کی شخصیت کی ،اور ان کے مخصوص(اور ناقابلِ تقلید حد تک)منفرد اسلوب کی چھاپ گہری ہے۔جوگندر پال کے ہاں کہانیوں کی رنگا رنگی اور موضوعاتی تنوع کے باوجود ان کا اسلوب اتنامنفرد اور بے تکلفانہ ہے کہ اس کی تقلید کرنا ممکن ہی نہیں لگتا۔ انہوں نے کہانی لکھنے کا ایسا ڈھنگ نکالا ہے کہ بہت سے لوگ ویسا لکھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن انہیں مکمل طور پر ادراک ہے کہ ایسا بے ساختہ انداز ان کے ہاں آ ہی نہیں سکتا۔جوگندر پال اپنی اس خوبی سے آشنا ہیں۔اسی لئے اپنے مداح نئے لکھنے والوں کی اس محبت اور بے بسی کی ملی جلی کیفیت کو مزے لے لے کر دیکھتے ہیں ۔
ڈاکٹرارتضیٰ کریم نے جوگندر پال کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ہے’’جوگندر پال،ذکر،فکر ، فن‘‘۔۵۴۴ صفحات کی اس ضخیم کتاب میں جوگندر پال کے فن کی مختلف جہات کا متعدد زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ جوگندر پال کے بارے میں ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کے دو ابتدائی مضامین کے علاوہ یہ کتاب سات ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔پہلا باب ’’ذکر : بقلم خود‘‘کے تحت جوگندر کے چار اہم مضامین ’’شہر آرزو‘‘۔’’کتھا یاترا‘‘۔’’پل بھر زندگی‘‘اور ’’خود وفاتیہ‘‘سے مزین ہے۔ان چاروں مضامین سے جوگندر پال کی ذاتی زندگی کی روداد سامنے آتی ہے اور ان کے ادبی رویوں کی بنیاد کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
دوسرا باب’’ذکر:آئینہ‘‘کے تحت جوگندر پال کے فن کی مختلف جہات پر ان ادیبوں کے مضامین سے آراستہ ہے۔دیوندر ستیارتھی،کرشن چندر،فکر تونسوی،مجتبیٰ حسین،رتن سنگھ،کرشنا پال،عتیق اﷲ اور شہزاد منظر۔
کتاب کے تیسرے باب’’فکر:مکالمے‘‘میں جوگندر پال سے لئے گئے سکریتا پال ،رنویر رانگڑہ،سنیل ترویدی اور ارتضیٰ کریم کے چار انٹرویوز شامل ہیں۔ان انٹرویوز سے جوگندر پال کی تفہیم کے کئی نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔
چوتھا باب’’فکر:مقالے‘‘کے زیر عنوان ہے۔اس میں جوگندر پال کے چھ تنقیدی و تاثراتی مضامین شامل ہیں۔ان سے جوگندر پال کی تنقیدی بصیرت اور ان کے تنقیدی معیارات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
پانچویں باب’’فن:افسانے؍ا فسانچے‘‘ میں ان کے افسانوں اور افسانچوں کے مختلف مجموعوں پر ان ادباء کے مضامین شامل کئے گئے ہیں۔وہاب اشرفی،محمد علی صدیقی،قمر رئیس،صبا اکرام،شارب ردولوی،فردوس حیدر،انور سدید،شمیم احمد،وزیر آغا،حامدی کاشمیری،بشر نواز،فہیم اعظمی،اکبر حمیدی،رعنا حیدری،ابو ظہیر ربانی،ممتاز احمد خان اور حیدر قریشی۔
چھٹے باب ’’فن:ناول؍ناولٹ‘‘ میںجوگندر پال کے ناولوں اور ناولٹس کے بارے میں ان ادیبوں کے مضامین شامل ہیں۔لطف الرحمن،وزیر آغا،عتیق اﷲ،شفیق احمد شفیق،انور سدید،حیدر قریشی،پیغام آفاقی،ممتاز احمد خاں اور حمید سہروردی۔
آخری اور ساتویں باب’’زبان تنقید‘‘میں محمود واجد اور مبین مرزا نے جوگندر پال کی کتاب’’بے اصطلاح‘‘کا جائزہ لیا ہے۔
جوگندر پال کے فن اور ان کی شخصیت کے بارے میں یہ کتاب ایک دستاویزی اہمیت کی حامل ہے ۔ جوگندر پال پر آنے والے وقت میں جو اہم کام ہوگا اس کے لئے یہ کتاب بہترین گائیڈ ثابت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔