جانے کس کا پاپ میرے سر منڈھ دیا ہے۔ سب مجھے بدھو سمجھے ہیں؛ آگے سے بولتا جو نہیں؛ حالانکہ سب جانوں ہوں۔میں چپ رہتا ہوں؛ بولوں تو ابا مارے ہے۔ اس روز بھی جب ابا چولھے کے پاس بیٹھا بھات کھا رہیا تھا اماں نے چولھے میں پھونکیں مار کر دوپٹے سے اپنی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے کہا،’’رمجو! پنچوں نے فیصلہ کیا ہے کہ چڑھتے چاند کی پہلی جمعرات کو تیری شادی ہو گی۔ نصیبو اچھی چھوری ہے؛ مجھے بھی کام کا سکھ ہو جاوے گا۔‘‘
میں بولا، ’’کام خاک کرے گی۔ کل گلی کی نکڑ پے الٹیاں کر رہی تھی۔ اس کا تو پیٹ بھی پھولتا جاوے ہے۔‘‘
ابا نے چولھے سے جلتی ہوئی لکڑی نکال مجھے دے ماری، ’’چپ! حرام جادے………… ایک لفظ اور منہ سے نکالا تو جبان کاٹ دوں گا۔‘‘ میں اچھل کر جلتی لکڑی سے تو بچ گیا لیکن ابا کی انگارا آنکھوں نے مجھے اندر تک جلا دیا۔
میں سہم کر چپ ہو گیا؛ حالاں کہ سب جانوں ہوں۔ ساری برادری نے مل کر اس کا پاپ میرے سر منڈھ دیا ہے کہ ’چل رمجو! حرام کا جنا پال۔‘ پر ابا تو مجھے بھی ہر بات پر حرام جادہ کہوے ہے۔ اماں نے بھی کبھی اسے پلٹ کر جواب نہیں دیا؛ شاید میں خود بھی کسی کے پاپ کی پیداوار ہوں اور اب کسی کا پاپ بھگتنے جا رہیا ہوں۔
اوپر والا بھی اماں کی طرح چپ چاپ میرا تماشا دیکھے ہے؛پر اماں کم سے کم اس وقت تو مجھے ہلدی تیل لگا دیوے ہے جب ابا مجھے ڈنڈے سے دْھنتا ہے۔ اوپر والے سے تو اتنا بھی نہ ہو سکے؛ سارا اختیار پنچوں کو سونپ کر خود آسماناں میں چین سے بنسی بجاوے ہے۔
ان سالے پنچوں کا زور بھی کمزور پر چلے ہے۔ کیا بگاڑ لیا انھوں نے رشیدے کا جس نے بھری پنچایت کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا؛ حالاں کہ پہلے اسی نصیبو سے شادی کرنے واسطے ماسی رحمتے کی منتیں کرے تھا پر جب دیکھا کہ ملائی تو کوئی اور چٹ کر گیا تو میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
آخر قابو مجھ حرام جادے کو ہی آنا تھاکہ لو بھگتوکسی کا پاپ۔ نہ جانے کس کا پاپ ہے؟………… پاپ کی گٹھڑی گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی ہے………… بیٹھی رہے۔………… اپن تو دوسری طرف منہ کر کے سوتے ہیں۔
٭٭٭
یہ سالا رشیدا بھی خود کو بڑا چودھری سمجھے ہے۔ کیسے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بول رہیا تھا، ’’اپنے لونڈے کو سمجھا لے۔ اب میرے کھیتوں میں بکریاں لے کر آیا تو ٹانگاں توڑ دوں گا۔‘‘
بے شک توڑ دے ٹانگاں!…… اپنا کیا لینا دینا!…… حالاں کہ سالا سب جانے ہے کہ ممدو میرا لونڈا نہ ہے؛ پھر بھی مجھے سنانے آ جاتا ہے۔ ………… شادی والے دن بھی کیسے گلے مل کر مبارک دے رہیا تھا؛ جیسے میں شادی سے بڑا خوش ہوں۔ …………پر اکیلا رشیدا کیا ساری برادری مجھے مبارکاں دے رہیی تھی۔ حالاں کہ سب جانو تھے۔
ظالموں نے میری شادی کا پورا ناٹک رچایا۔ بوڑھیاں بلائیں لے رہئی تھیں۔ چھوریاں گھوڑی چڑھنے کے گیت گا رہئی تھیں، حالانکہ موہے تو صرف گھوڑی کی رسی پکڑائی جا رہی تھی کہ بکریوں کے ساتھ اسے بھی چھپر تلے باندھ لے۔دوسرے دن بھاگ دوڑ میں ماسی رحمتے چادر دکھانا بھول گئی؛ باقی عورتاں میں بھی کسی کو چادر کا پوچھنا یاد نہ آیا۔
٭٭٭
کھانس کھانس کر برا حال ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ بلغم سے پہلے دم نکل جائے گا۔ ممدو کہنے لگا، ’’بابا! وید کے دوا سے آرام نئیں آ رہیا۔ نصیرا کہہ رہیا تھا لکھیم پور میں ایک بڑا قابل حکیم ہے، اس کے تاؤ کا دمہ انھی کی دارو سے ٹھیک ہوا تھا۔ میں تمھیں کل لے چلوں گا۔‘‘ میں کھانستے ہوئے بولا، ’’رہن دے! لکھیم پور تو بہت دور ہے۔ ویسے بھی میں نے ہور جی کر کیا کرنا ہے۔ میرے واسطے اپنا دیہاڑی غارت نہ کر۔‘‘
ممدو اس وقت کچھ نہ بولا پر سویرے اٹھتے ہی گدھے کو تیار کر کے مجھے اس پر بٹھایا اور چل دیا لکھیم پور کی اور (طرف)۔ خشک رستے پر تو گدھا آرام سے چلتا رہیا پر ندی کنارے پہنچتے ہی اڑ گیا۔ ممدو نے لاکھ ڈنڈے مارے پر ٹس سے مس نہ ہوا۔ تنگ آ کر میں نے کہیا ’’رہن دے! واپس چلتے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی اس نے اپنی چادر اڑسی……؛ مجھے گدھے سے گھسیٹ؛ اپنی پیٹھ پر لادا اور ندی میں گھس گیا۔ میں کھانستا ہی رہ گیا۔
میرا اپنا ہوتا تو شاید وہ بھی اتنی کھدمت نہ کرتا۔ اس رشیدے کے بیٹے نے بھری پنچایت میں اپنے باپ کو گالیاں دیں اور وہ خاموشی سے سنتا رہیا۔
خاموشی تو ہمارے گھر میں بھی ہمیشہ رہتی تھی۔ کبھی گاؤں والوں نے ہمیں لڑتے نہیں سنیا۔ لڑائی ہوتی بھی کیسے؟…… ہمرے درمیان تو بات بھی نہ ہوتی تھی۔ خاموشی سے وہ سارے کام کر دیتی۔ اس میں اتنی ہمت ہی نئیں تھی کہ میرے ساتھ بات کرتی۔ اس سے بات کرنے کے تصور سے ہی میری رگیں پھٹنے لگتیں اور چھونے کی تو مجھ میں صلاحیت تھی ہی نہیں۔
ساری عمر کسی کا پاپ بھگتتی مر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔