فرحت نواز کی شاعری کا دائرہ وسیع ہے،لا محدود نہیں۔لیکن اُس دائرے کے مرکز میں جو نقطہ ہے وہ لا محدود ہے۔یہ وہی انسانی جذبہ اور وہی آرزو ہے جو اس کے اندرازل سے موجود ہے اور اُس کے رنج و الم کا سبب ہے۔ان کی شاعری اس ازلی آرزوکی تکمیل کی جستجواور اُس سے حاصل شدہ پرانے انسانی تجربوں کے نئے ذاتی احساس کا اظہارہے کہیں تصنع سے عاری اور کہیں انوکھا ۔(آبلے ہو گئی ہیں آنکھیں ؍کیا انگارہ تھا وہ شخص)لیکن ان کی شاعری وہاں ہمیں خوش کن حیرت میں ڈال دیتی ہے جہاںاس ازلی انسانی جذبے کی اتھاہ گہرائی اور گیرائی شجر کے روپ میں نمودار ہوتی ہے اور شجر سے ہوا کے رشتے کا علامتی لیکن بامعنی اظہار ہوتا ہے۔فرحت نواز نے ان علامتوں کو خلق کرکے انسانی تجربے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے اور میرے خیال میں کسی بھی شاعری کی سب سے بڑی خوبی اسی کو سمجھنا چاہئے۔ان کی شاعری میں خوابوں کا ایک جہاں آباد ہے اور آنکھوں نے ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے۔ان کو یوں توکلاسیکی اور جدید دونوں قسم کے شعراء نے برتا ہے لیکن فرحت نوازکے یہاں اُن کی اتنی جہتیں ملتی ہیں کہ ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
(خواب جو اپنے لیے اب ہیں سرابوں کی طرح
اپنی آنکھوں میں انہیں بھر بھر کے پانی سوچنا)
فرحت نواز کی شاعری کا ایک اہم جزوگھریلو زندگی کا سرد گرم ہے لیکن قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس میں انہوں نے ماں کو مرکزی اہمیت دی ہے۔دیگر امور کے علاوہ ماہرین نفسیات کے نظریے،ادبیاتِ عالم، ہندوستانی فلمیں اور ساحر لدھیانوی جیسے افراد کی زندگیوں نے یہ درس دیا کہ ماں اور بیٹے کے درمیان محبت ایک فطری شے ہے ۔۔۔۔اس کے برعکس فرحت نواز نے اپنی شاعری میں اس مستحکم خیال کوsubvert کرکے نسائی حسیت کا ثبوت فراہم کیا۔ ان کی شاعری کا اچھا خاصا حصہ ماں اوربیٹی کے رشتے کو محیط ہے۔(تضاد،آئینے سے ایک سوال،دعا،بابل،بابل تیری یاد آئے،کاش)۔یہ حقیقت پسندانہ رویہ نسائی شاعری میں ایک نیا دروا کرتا ہے۔اس مقام پر اس امکان کو نشان زد کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فرحت نواز کی رقصِ وحشت کروں،بَن باس میں ایک دعا،مَنّت کے دھاگے، ناانصافی، جہاں پناہ،تیز چلتی ہوا نے تماشا کیا جیسی نسائی حسیت سے لبریز نظمیں کل اُن کا شناس نامہ بننے والی ہیں۔
فرحت نواز کی شاعری کا دیگرقابلِ توجہ پہلو ان کا سماجی اور سیاسی سروکار ہے۔اعلان فرمادو،انوکھی تاجپوشی،فرعون کی کرسی،اب نیا دور ہے اور امن کی فاختہ کے نام سیریز کی نظمیںاس کا اشاریہ ہیں کہ فرحت نواز انسان کی ازلی آرزؤں اور تمناؤں کی شکست وریخت کی دنیا سے باہر قدم رکھ رہی ہیں اور اپنے معاشرے کے گردوپیش کی بدصورتی کے سیاسی اور سماجی اسباب کی جستجو میں ہیں۔ایسا امکان ہے کہ آئندہ دنوں میں ان اسباب کی جستجوان کی شاعری کا غالب موضوع بن سکتے ہیں۔
انہوں نے زبان کو روایت سے الگ ہو کر بھی برتا ہے لیکن ان کا یہ عمل دانستہ کے بجائے فطری معلوم ہوتا ہے ۔انہوں نے اس عمل میں کئی نئی تراکیب بھی وضع کی ہیں اور اردو لغت کو متموّل کیا ہے۔
خوش آمدید فرحت نواز!آپ ہی کی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے۔
فرحت نواز
تیز چلتی ہوا نے تماشا کیا
گھومتے پاٹ پر چلتے رہنا پڑا
اک توازن بنانا تھا مشکل مگر
فاصلہ طے کیا
زندگی کو جیا
لاکھ چاہابہاریں،یہ جگنو،یہ خوشبوئیں
مجھ میں ہمیشہ رہیں
ایسا منتر نہ آیا کوئی
چاندنی،موتیا،بارشیں،خواہشیں،خواب
مدھم پڑے
رنگ رنگولیوں کے اُڑے
تیز چلتی ہوا نے تماشا کیا
سوکھے پتوں سے آنگن مِرا بھر دیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔