بند مٹھی سے ملا کرتے تھے آنے کتنے
ماں نے صندوق میں رکھے تھے خزانے کتنے
خیریت تک نہیں لیتا کبھی بھولے بسرے
"مجھ سے ملنے کے جو کرتا تھا بہانے کتنے"
جب سے تو نے مجھے اپنانے کا اعلان کیا
لوگ ناراض ہوئے ہم سے نہ جانے کتنے
کسی درگاہ کی چوکھٹ کسی صوفی کا مزار
ہم ملنگوں نے بسائے ہیں ٹھکانے کتنے
تو چلا جائے گا فاروق تو چھائے گی خزاں
تیرے دم سے سبھی موسم ہیں سہانے کتنے