حیدرقریشی ہمارے ان نوجوان دوستوں میں ہیں جو بیرون ملک مقیم ہونے کے باوجود اَنتھک محنت،لگن اور انہماک سے اُردو زبان وادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔میرا ان کا پہلا تعارف ’’اوراق‘‘ کے حوالے سے ہوا تھا۔ڈاکٹر وزیر آغا کے حلقے کے بیشتر لوگ جن میں غلام جیلانی اصغر،ڈاکٹر انور سدید،ڈاکٹر بشیر سیفی،جمیل آذر اور شاہد شیدائی حلقے کے نمایاں افراد میں تھے جنھیں احمد ندیم قاسمی کے دبستان ’’فنون‘‘کے مد مقابل سمجھا جاتا تھا۔عام طور پر تاثر یہ تھا کہ رسالہ’’فنون‘‘ترقی پسند مصنفین کے آدرشوں پر کاربند اہلِ قلم کی نمائندگی کرتا ہے اور ’’اوراق‘‘جدید ادب کی تحریکوں کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتا ہے۔
حیدرقریشی اپنے علمی وادبی سفر کے آغاز ہی سے بہت سنجیدہ،فعال اور متحرک شخصیت کے طور پرسامنے آئے تھے۔بعض ناگزیر وجوہ کے سبب انھیں وطن چھوڑ کر مغربی جرمنی میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔اس دربدری نے ان کے جذبہ حب الوطنی اور ادب دوستی کو اور زیادہ جلا بخشی اور وہ اپنے وجود کی پوری توانائیوں کے ساتھ زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور ایک طویل عرصے سے وہاں ایک تہذیبی ادبی روایت قائم تھی،چنانچہ دنیا کے نقشے پر لندن متعارف رہا۔اسی طرح جدہ،نیویارک،شکاگو اور اوسلو میں رہنے والے اردو دوستوں نے تازہ بستیوں کی بنیاد کی بنیاد گزاری کا فریضہ انجام دیا۔جرمنی کا تعارف ہمارے زمانے میں اردو دنیا کی ممتاز اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کے توسط سے ہوا۔اردو کے ممتاز تخلیق کار منیرالدین احمد نے جرمن زبان کی بعض بے مثال تحریروں کو اردو میں ترجمہ کرکے زبان کو نئی دشاؤں سے آشنا کرایا۔ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں پروفیسر فتح محمد ملک اور کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اردو ورثے کی ترویج و فروغ میں پیش پیش رہے۔پروفیسر فتح محمد ملک نے اقبالیات کے فروغ میں انتہائی موثر اور دیر پا خدمات سر انجام دیں۔اس روایت کی توسیع میں حیدرقریشی نے بھی بہت اضافہ کیا۔جرمنی میں رہنے کے باوجود پاکستانی ادبی حلقوں سے اور نامور تخلیقی شخصیتوں سے ان کے روابط انتہائی مستحکم رہے۔خوش گوار بات یہ ہے کہ انھوں نے تعصبات سے بالا تر ہو کر ہر فکرونظر کے ادیبوں سے تعلقات استوار رکھے اور ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔گروہ بندی کے اس دور میں حیدر قریشی کی فراخ دلی ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔اپنے نظریے پر قائم رہنے اور دوسروں کے نظریے کا احترام کرنا ہمیشہ ان کے پیش نظر رہا۔جرمنی میں اردو حلقوں کے علاوہ انھوں نے مقامی جرمن آبادی میں بھی اردو زبان و ادب کو متعارف کرانے میں بڑا کردار ادا کیا اور اب ایک ایسا حلقہ مقامی باشندوں کا ہے جو ہماری زبان اور ادب سے کسی حد تک آگاہی رکھتا ہے۔اداروں کے کرنے کا یہ کام ’’جدید ادب ‘‘کے ذریعے حیدرقریشی نے سر انجام دیا جس کے لیے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
(وفاقی اردو یونیورسٹی۔اسلام آبادسے ڈاکٹر وسیم انجم کی زیر نگرانیکنول تبسم کے ایم فل کے مقالہ۔’مجلہ ’’جدیدادب‘‘کی ادبی خدمات‘‘ میں شامل افتخار عارف کے تاثرات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔