مداواہو نہیں سکتا
دلِ سادہ
اب اُس آتش نما کے سامنے عجزِ محبت کا اِعادہ ہو نہیں سکتا
یہ کیا کم ہے کہ اپنے آپ تک کو بھول کر
اُس حسنِ خود آگاہ کی خاطر نہ جانے کتنے روز وشب تھے
جو ہم نے گنوائے تھے
بہت سارے دنوں کی گٹھڑیاں تھیں
جن کو کھولا تک نہ تھا ہم نے
بس اک تہہ خانۂ عمرِ گزشتہ میں
ہم ان سب گٹھڑیوں کو ڈھیر کرتے جارہے تھے،
اُن گھنی پلکوں کی ٹھنڈی چھائوں کو محسوس کرنے کی تمنّا میں
ہمیں یہ دھیان کب تھا، کون سی گٹھڑی میں کتنا
خوب صورت دن بندھا ہے اور اُس بے دام دن کی صبح ساحر
کس ہَوا کے تخت سے اُتری ہے،
کن پھولوں کی خوشبو زیب ِتن کرکے
سوادِ شب سے جھانکی ہے
لب و رخ سار کو قوسِ قزح کے رنگ دینے کی
عبث خواہش میں ہم کو دھیان کب تھا، کون سی گٹھڑی میں
کس دن کی دوپہر اپنے طلسم آثار رازوں کو سنہری دھوپ
کے تھل میں جگاتی ہے
چھتوں پر سوکھتی مرچوں
گلی میں گونجتی، اسرار میں ڈوبی ہوئی سی خامشی میں
کون سے لمحے سلگتے ہیں
ہمیں یہ دھیان کب تھا
اُس تمنّا زار کے پیراہنِ صدر رنگ کے اندر مہکتی گرم
خوشبو کے خرامِ تازہ میں کھوئے ہوئوں کو دھیان کب تھا
کون سے دن کی سہانی شام کنِ اُفقوں کو روتی ہے
بہت سارے دکھوں کے درمیاں
جو ایک شمعِ آرزو تھی، اس کی لَو کے سامنے جھک کر
ہم اُس بے مہر چشمِ منحرف میں بس ذرا سی دیر کو
اک حرف کی تعبیر پڑھنا چاہتے تھے اور خمیرِ عشق میں
گوندھے ہوئے اک خواب کا اظہار کرنا چاہتے تھے
اور اس ساری کہانی میں ہمیں یہ دھیان کب تھا،
کون سی گٹھڑی میں کس دن کا جنازہ ہے
ابھی تہہ خانۂ عمرِ گزشتہ کا یہ دروازہ کھلا
تو دھیان آیا ہے کہ اتنی ڈھیر ساری عمر مٹّی میں
ملا کر جو خساراہاتھ آیا ہے، دوبارہ ہو نہیں سکتا
مداوا ہو نہیں سکتا
دلِ سادہ؍اب اُس آتش نما کے سامنے
عجزِ محبت کا اِعادہ ہو نہیں سکتا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔