ہماری ایک کام والی خاتون کا نام، خاتون کیا لڑکی ہی کہیے، 40 سال سے تو کم ہی تھی، تہذیب تھا۔ وہ ہمارے محلے کے ایک اور گھر میں بھی کام کرتی تھی جہاں اتفاق سے خاتونِ خانہ کا نام بھی تہذیب تھا، چنانچہ جب پہلی بار ہم نے تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں سنا تو یہی سمجھے کہ ان دونوں تہذیبوں کا کوئی جھگڑا ہو گیا ہے جس کے بارے میں میڈیا میں بات ہو رہی ہے۔ اب اگر آپ میں ذرا بھی معصومیت ہے تو آپ پر لازم ہے کہ ہماری معصومیت کی داد تالیاں بجا کر دیں، ایسے ہی جیسے سنیما میں قومی ترانہ بجنے پر ہر کس و ناکس پر کھڑا ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے کے ہم اس موضوع پر آگے بڑھیں ذرا ہمیں حیرت کر لینے دیں اس بات پر کہ دوسرے ملکوں کے سنیما گھروں میں قومی ترانہ کیوں نہیں بجایا جاتا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، بہت سے ملکوں کا نہ سہی دو ایک ملکوں کا تو ہمارا گوش شنید تجربہ ہے۔
خیر اتفاق سے ہم نے تہذیبوں کے تصادم کی بات اپنی ایک بزرجمہر دوست سے کی۔ انہوں نے فون پر ہی یوں گھورا کہ ہماری پتِّی پانی ہو گئی۔ گھبرائیے نہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق خواتین کے اعضائے رئیسہ کو بھی کلیجی، پھیپھڑی، گردی، لبلبی وغیرہ کہنا چاہیے آخر ہم ہی ہیں جو لیڈی ڈاکٹر کو ڈاکٹرنی کہتے ہیں۔
بہرحال جب انہوں نے بتایا کہ یہ گوروں اور غیر گوروں کی تہذیبی جنگ کا ایک نظریہ ہے جسے کئی برس پہلے کسی پروفیسر سیموئیل نے امریکہ میں پیش کیا تھا تو خوشی سے ہماری گھگھی بندھ گئی۔ خوشی اس بات کی کہ پروفیسر کی باتوں میں آکر گوروں نے ہمیں بھی تہذیب یافتہ مان لیا۔ ورنہ اس سے پہلے تو گورے تمام کالوں، تمام گندمیوں، تمام پیلوں اور تمام سرمئیوں کو غیر تہذیب یافتہ ہی مانتے، کہتے اور سمجھتے تھے۔
آپ کا دل چاہے تو اس بات پر یقین کیجیے، ورنہ اپنے گھر جایے، کہ ایک عرصے تک مہذب گورے اس بات پر تحقیق کرتے رہے کہ کالوں میں روح ہوتی ہے یا نہیں۔ ماننا چاہیں تو یہ بات بھی مان لیجیے کا امریکہ کی دیوانی جنگ یعنی سول وار کالوں کی غلامی برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کی بنیاد پر ہی ہوئی تھی۔ اور یہ کہ اپنے دور عروج میں مغرب نے اپنے سر رضاکارانہ طور پر ساری دنیا کو تہذیب کے دائرے میں لانے کی ذمہ داری از خود لے لی تھی۔
تو صاحبو اب جنگ کی ٹھہر ہی گئی ہے تو جنگ رہے۔ اور جیتیں گے ہم ہی۔ مغرب جلتے توے پر بھی بیٹھ جائے مشرق، شمال اور جنوب کی دیرینہ روایات کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ ان کی تو تہذیب کا حلیہ مولانا ظفر علی خان پہلے ہی 'وہ تھپڑ' رسید کر کے بگاڑ چکے ہیں۔ یہ نہ سوچیے گا کہ تھپڑ رسید کرنے سے حلیہ کیسے بگڑ سکتا ہے۔ ہاں اگر وہ کہتے کہ کمر پہ وہ لاتیں رسید کرو تب ہم بھی آپ کو سوچنے سے نہ روکتے۔
دیکھیے نا اور خود انصاف کیجیے۔ ویسا ہی انصاف جیسا قاضی القضاء، مامون الرشید کے دور میں، جگہ جگہ جاکر بنا مانگے کرتے تھے اور ساتھ ہی نہر زبیدہ کی تخلیق کے لیے چندے کی اپیلیں بھی کرتے تھے۔ رکیے موجودہ سیاسی صورتحال سے مماثلت محض اتفاقی تصور کی جانی چاہیے۔۔۔۔
تو آپ خود سوچیے بیچارے مغربی۔ ان کی ایک ہی تہذیب اور ہماری ان گنت تہذیبیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں۔۔۔۔ پتھر کے دور کی تہذیبیں تک تو ہم نے زندہ رکھی ہوئی ہیں۔ تو غریب مغربی تہذیب کس کس کا مقابلہ کرے گی اور کہاں تک؟ بقول شاعر تم کتنے مچھر مارو گے – ہر گھر سے مچھر نکلے گا۔اور ہاں جنگ میں پروپیگنڈا بھی تو ایک اہم ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تو ہم نے بھی اپنے سوہنے دیس کی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے مغرب کو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہمارے معاشرے سے تعصب اور ذات پات کا فرق بالکل مٹ گیا ہے۔ کتنا مزا آئے گا جب وہ تہذیبوں کی جنگ لڑتے لڑتیلڑتے لڑتے اٹک کے پل تک پہنچ جائیں گے اور پھر چوہے کی طرح ہمارے رسوم و رواج کی مچھر دانی میں پھنس جائیں گے۔ جیت تو پھر ہماری ہی ہو گی نا۔
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
اب تہذیبی جنگ ہونی ہے تو اس کے لیے جنگی مشقیں بھی ہونی چاہییں۔ ورنہ تو عین لڑائی میں کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ وقت نماز کے آنے سے پہلے ہی جنگ ختم ہو جائے گی۔ اس لیے ہم اپنے ہی ملک میں یہ جنگی مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی پٹھانوں کے لطیفے بنا کر مشق ناز کرلی تو کبھی پنجاب کے شیر کراچی جا کر پان کھانے والوں کو للکار آئے۔ کسی کو یہ کہنے کا موقع بھی نہیں دیا کہ کیسے تیر انداز ہو۔ دشمن شمال میں مورچہ بند اور تیر اندازی جنوب کی سمت۔۔۔
ہمارے برصغیر میں تو ذات پات کا تصور مذہب سے بھی بالا تھا۔ تھا تو ویسے ہی کہا تاکہ یہیں تہذیبوں کی جنگ نہ شروع ہو جائے۔ تاہم اس دور میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف تہذیبوں میں پلے بڑھے لڑکا لڑکی نکاح پڑھا کر ایک چھت کے نیچے رہنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ تو ان کے درمیان بھی زیادہ تر خانگی جنگیں تہذیبی اختلاف پر ہی ہوا کرتی ییں۔
تہذیب و تمدن میں لباس کے بعد سب سے اہم چیز زبان یعنی بولی ہے۔ اب اگر باپ کی زبان پشتو اور ماں کی زبان پنجابی تو بچے تو ماں کے بے زبان ہونے کے باوجود ماں کی زبان ہی بولیں گے۔ مگر گھروں اور خاندانوں میں تہذیب کے معاملے میں بھی 'جس کی لاٹھی' کا اطلاق اللہ میاں کی گائے پر بھی ہوتا ہے۔ اور عام حالات میں تو عالم نزاع میں صرف سسرالیوں کو گالیاں پڑتی ہیں مگر جہاں زن و شو کا تعلق مختلف تہذیبوں سے ہو وہاں دشمن کی پوری تہذیب کے انڈے گندے قرار پاتے ہیں۔۔۔
ہم آپ تعلیم یافتہ ہیں اور سائنسی دور ہے۔ بغیر مثال کے بات آپ کی سمجھ میں نہیں ائے گی۔ تو ہم آپ کے سامنے ایک کیس اسٹڈی رکھتے ہیں۔۔۔ اس کیس میں بیوی کا تعلق اردو بولنے والے پنجابیوں سے تھا اور شوہر جٹ۔ اور یہ سنی سنائی نہیں آنکھوں دیکھی نہیں بیتی بتائی ہے کہ جب ڈھائی برس کے بیٹے نے کسی تقریب کے لیے تیار ہوتے ہوئے کہا" امی میں یہ سوٹ نہیں بلکہ یہ چیک والی رنگ برنگی قمیض پہنوں گا۔" تو ماں خوشی سے نڈھال ہو گئی کہ" دیکھا ہمارا بیٹا کتنی شاندار رواں اردو بولتا ہے۔" رقیبوں کو یہ بات کیسے ہضم ہوتی، فوراً توپ کا گولہ داغا گیا کہ "تم جتنی مرضی اردو سکھا لو رہے گا تو جٹ دا پتر۔"
لیکن ایک چیز ہوتی ہے ففتھ کالم۔ آپ لوگوں میں کسی نہ کسی کو پتا ہوگا ہی کہ یہ کالم اخبار کا کالم نہیں۔ نہ یہ کسی کمپیوٹر کی ٹیبل کا رو اور کالم والا کالم ہے۔ فوجوں میں جیسے پلاٹون، کمپنی، ڈویڑن وغیرہ ہوتے ہیں ویسے ہی ایک چیز کالم بھی ہوتا ہے۔ تو جو لوگ دشمنوں کی صفوں میں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کے مفاد میں کام کرتے ہیں انہیں ففتھ کالمسٹ کہا جاتا ہے۔ ویسے تو مغربی تہذیب کے سب سے بڑے سَرخَیل امریکہ میں ہمارے نیگرو بھائی تہذیب کی جنگ میں ففتھ کیا ہنڈریٹھ کالمسٹ کا کام کر رہے ہیں اور ان کی تہذیب کو اپنے انداز میں بدل رہے ہیں، لیکن ہمارے پاکستانی، ہندوستانی، عرب بھائی بھی کسی سے کم نہیں۔ وہ بھی دشمن کی گلیوں میں اس کی تہذیب کو چٹکیاں لے ہی رہے ہیں۔ لاکھ کوٹ پتلون پہن لیں، ہیں تو اندر سے دیسی ہی۔ چنانچہ وہاں بھی جادو ٹونا اور عملیات وغیرہ کی تہذیب مغربی ٹچ ووڈ ( touch wood)کے پہلو بہ پہلو چل رہی ہے۔جان لیجیے اور مان لیجیے کہ ہماری بات پتھر پر لکیر ہوتی ہے اور اب یہ لکیر جو ہم نے کھینچی ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے مغربیو..!!! سورج ہمیشہ مغرب میں ہی ڈوبتا ہے۔ نوشتہء دیوار خود پڑھ لو تو اچھا ہے۔ نہ پڑھو تو اور بھی اچھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔