محقق، تنقید نگار، شاعر،افسانہ نگاریعنی اک کثیرالجہت ادیب اک ہمہ جہت شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے چند روز کا وقت بے حد قلیل ہے اس جلد بازی میں میں کچھ معیاری تحریر تو نہ لکھ پاؤںگی۔ اور انکار میں کر نہیں سکتی کیونکہ جن کے لیے لکھنا ہے وہ بہت محترم ہیں اور جس نے لکھنے کی درخواست کی ہے وہ بہت پیارا ہے۔ جو ہو پایا ہے وہ پیش خدمت ہے۔ کمی بیشی کو نظر انداز کر دیجیے گا۔جب میں حیدر قریشی سے واقف نہ تھی، ان کا ذکر2003 میں ہندوستان کے بالخصوص دہلی کے ادبی حلقوں میں سنا تھا۔ دہلی میں مشہور ادیب جوگندرپال اورانکی بیگم کرشنا پال نے ایک پروگرام میں باقاعدہ میری کلاس لے کرحیدر صاحب سے واقف کر دیا۔ سوال کیا کہ جرمنی میں حیدر قریشی سے ملاقات تو رہتی ہوگی ؟ میرا جواب تھا جی نہیں۔ اچھا تو پھران کے کام سے تو واقف ہونگی؟۔ میں نے شرمندگی سے اِدھراُدھر دیکھنا شروع کر دیا تو کرشنا پال نے حیرت سے کہا، انڈیا میں جرمنی سے آئی اک افسانہ نگار جرمنی میں موجود ایک مشہورافسانہ نگارکا کام نہیں جانتی!
تب میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ واپس جاتے ہی حیدر صاحب سے متعلق معلومات ضرور حاصل کرونگی۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں 2003 انٹرنٹ کا نیا نیا دور تھا۔ سوشل میڈیا کی پیدائش بھی نئی نئی تھی۔ میں جدید ادب اور جدیدیت کی متلاشی تو تھی مگر جدید مشینوں سے دور، کم رابطوں اور زیادہ ضابطوں کی قائل تھی۔ جرمنی میں میری آمد 2001میں ہوئی تھی۔ پاکستان میں میرِی پہنچ پشاور سے اسلام آباد کے ادبی حلقوں تک تھی جبکہ جرمنی میں میری رسائی ائیرفورٹ یونیورسٹی سے برلن یونیورسٹی تک۔ البتہ برلن کے ایک دو ادبی حلقوں میں مدعو کی جاتی تھی ,وہاں میرے پوچھنے پر بھی مجھے علم نہ ہوپایا کہ برلن کے علاوہ جرمنی میں اردو زبان و ادب سے متعلق محافل اور تنظیمیں ہیں یا نہیں؟۔ اس بار میں حیدر قریشی صاحب کی تلاش کا ارادہ کر چکی تھی۔ اس لیے آپ کی تحریروں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا۔ اس دوران وزیرآغا پر آپ کے تحقیقی کام سے آگاہی ہوئی تو دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ چونکہ احمد ندیم قاسمی اور وزیرآغاکے درمیان ادبی معرکے سے واقف تھی۔ ان دونوں شخصیات سے پاکستان میں یونیورسٹی کے توسط سے ملاقات بھی تھی۔ اس لیے دل چسپی مزید بڑھی۔آپ کی کتاب ’’وزیرآغا عہد ساز شخصیت‘‘، اشاعت1995، میرے ہاتھ آگئی۔ اوریوں آپ سے پہلی ادبی ملاقات ہوئی ۔یہ کتاب اردو ادب میں تحقیق کی ایک اچھی مثال ہے تحقیق کی تاریخ میں آپ کا دوسرا کارنامہ ’’اردو میں ماہیا نگاری‘‘،’’اردو ماہیے کی تحریک’‘1997 اور1999 میں شائع ہوئیں جن میں آپ کی ماہیا تحقیق اور اسی کے متعلق تنقیدی مضامین اور خطوط شامل ہیں۔ آپ کے اس تحقیقی کارنامے نے ماہیے کو نہ صرف اردو شاعری کا جزثابت کیا ہے بلکہ اردو ادب کا اہم حصہ بنا دیا ہے ۔اردو ادب کے اساتذہ و محققین نے حیدرصاحب کی ماہیا نگاری کے فن پر عبور اور تحقیق کا اعتراف کیا ہے۔
2005 ء میں جب حیدر قریشی صاحب کی گیارہ کتابوں کو یکجا کر کے ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘کے نام سے عوامی ایڈیشن شائع ہوا تو مجھے ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے کی سعادت بھی نصیب ہو ئی۔ اور انڈیا کے ادبی حلقوں میں اٹھائی جانے والی خفت بھی کم ہو ئی۔ اس کلیات میں آپکے پانچ شعری مجموعے (سلگتے خواب، عمرِ گریزاں، دعائے دل، درد سمندر اور محبت کے پھول )اور چھ نثری مجموعے ( روشنی کی بشارت، قصے کہانیاں ) ،انشائیے (فا صلے قربتیں )، سفر نامہ (سوئے حجاز)، خاکے،یادیں (میری محبتیں اور کھٹی میٹھی یا دیں ) شامل ہیں، جسے اردو ادب کا نادر، انوکھا اور منفرد تجربہ قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں مختلف اصناف کو یک جا کیا گیا ہے۔
میری حیرتوں میں مزید اضافہ آپکے انٹرنیٹ کو انوکھے اور مثبت اندازِ استعمال کوجان کرہوا۔ جس نے مجھے اس ایجاد پر کیے جانے والے اعتراضات سے آزاد کردیا۔، اردو دوست ڈاٹ کام، حیدر قریشی ڈاٹ کام، حیدر قریشی اسپیسس ڈاٹ لائیو ، جدید ادب ڈاٹ کام، ویب سائٹس نے مجھے سکھایا کہ زبان و ادب کو نئی بلندیاں پر لے جانے کے لیے ایسا ہی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جیسے حیدر قریشی نے دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کو پہنچانے کے لیے اختیارکیا ہے۔ یہ تمام کام وہ اردو زبان کے لیے کارِ خیر کے طور پر کرتے ہیں۔ ’’نہ ستایش کی تمنانہ صلے کی پرواہ‘‘ نے حیدر قریشی کی تحقیقی و تخلیقی تصانیف کو اردو ادب کی دنیا میں شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ دنیا کے بہت سے مستشرقین آپ کے بارے میں اپنی آراء دے چکے ہیں۔ یہ مقام بہت کم اردو مصنفین خصوصا آپکے ہم عصر مصنفین کو میسر آیا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ آپ کا جہد مسلسل ،اپنے کام سے والہانہ محبت اورعرق ریزی سے نکتہ آفرینی ہے۔
مدیر سہ ماہی ادب ساز، دہلی،نصرت ظہیر لکھتے ہیں کہ:
’’ میرے ذاتی علم کے مطابق حیدر قریشی اردو کے واحد سنجیدہ ادیب ہیں جو انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ موجود ہیں۔ ان کا معیاری جریدہ ‘’جدید ادب‘‘ بھی اردو کا واحد ادبی رسالہ ہے جو کاغذ پر چھپنے کے ساتھ ساتھ پورے کا پورا انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ جدید ادب پہلے دو مرتبہ پاکستان میں چھپ کر بند ہو چکا ہے اور اب جرمنی سے شائع ہوا ہے تو نہایت پا بندی سے شائع ہو رہا ہے۔ بلکہ پہلے تو صرف کاغذ پر ہی چھپتا تھا اب آپ اسے انٹرنیٹ پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لطف یہ کہ حضرت نے اچھے خاصے ضخیم رسالے کی قیمت بھی کچھ نہیں رکھی۔ مفت تقسیم شروع کر دی۔ ایک تو اردو والوں کو ادب پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ اس پر مفت کا ادب! لوگ شک کرنے لگے کہ کہیں القاعدہ یا امریکہ تو اس کے پیچھے نہیں ہے جو ہمیں مفت میں ادب پڑھوا کر ہماری عادتیں خراب کرنا چاہتا ہو۔ آخر ہیں تو دونوں ایک ہی سکّے کے دو رخ۔
تنگ آ کر کچھ لوگوں نے ان کی منّت سماجت کی اور ہاتھ پیر جوڑے کہ بند ۂ خدا کچھ تو رسالے کی قیمت رکھ دو۔ چنانچہ حالیہ شمارے سے لوگوں کی یہ پْر زور درخواست منظور کرتے ہوئے انہوں نے از راہِ عنایت اس کی قیمت مقرر کر دی ہے ورنہ وہ تو اگلے شمارے سے ایک ‘’جدید ادب‘‘ بلا قیمت قبول کرنے والے کوساتھ میں ایک ‘’جدید ادب‘‘ مفت دینے کا ارادہ کئے بیٹھے تھے۔ اس طرح اردو کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی اردورسالے نے پبلک کی پر زور فرمائش پر مجبوراً اپنی قیمت طے کی ہے۔(نوٹ: از حیدرقریشی:صرف شمارہ نمبر دو کی قیمت مقرر کی تھی۔وہ شمارہ مشورہ دینے والوں نے خود مفت ہی لیا، چنانچہ پھر شمارہ تین سے رسالہ بلا قیمت کر دیا گیاتھا) ادب کے رسیا اور لوگ بھی ہیں۔ ادبی جریدے شائع کرنے کی خالص خسارے والی ادبی خدمت اور بھی کئی لوگ کر رہے ہیں۔ لیکن اکثر معاملوں میں یہ خدمت ادب کی بجائے اپنی ذاتی شخصیت کو چمکانے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے حضرات کے ادبی جریدے ان کی اپنی شاعری، اپنی نثر اور اپنی تصویر سے شروع ہوتے ہیں اور اپنی تعریف میں لکھے گئے مضامین و مراسلات پر ختم ہو جاتے ہیں۔ البتّہ بیچ میں جگہ بچے تو اپنے گروپ کے لوگوں کی بھی کچھ تخلیقات شائع کر دی جاتی ہیں۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ اس کے برعکس جدید ادب کے تازہ شمارے میں50 سے زائد ادیبوں کی100سے زائد نگارشات کے بیچ حیدر بھائی کے صرف دو مضمون ہیں۔ اور وہ بھی میرا جی اور جوگندر پال کے بارے میں۔ آپ ہی بتائیے ایسے شخص کو فنا فی الادب نہ کہیں تو کیا کہیں۔حیدر بھائی کی زندگی میں انٹر نیٹ کا، بلکہ خود انٹر نیٹ کی زندگی میں حیدر بھائی کا اتنا عمل دخل ہو گیا ہے کہ جس اردو سائٹ پر جائیے وہاں وہ کسی نہ کسی روپ میں مل جائیں گے۔ کہتے ہیں کہ کھانا بھی وہ کمپیوٹر کے پاس بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ کئی بار مجھے ان کے ای میل کے ساتھ بریانی اور شامی کباب کی خوشبو آ چکی ہے۔ واقعی، یقین کیجئے۔،،
اسی طرح میرے ہم شہر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان اپنے کالم ‘’دل پشوری’‘ میں جو روزنامہ،، آج،، پشاور، یکم جنوری2009 میںچھپا ، لکھا ہے کہ’’ حیدر قریشی ون مین ادبی رائٹنگ انڈسٹری ہیں۔‘‘
آئیے اب میں اس ادبی انڈسٹری کی ایک خاص پروڈکٹ خاکہ نگاری کوسامنے لاتی ہوں جس کے بارے میں آپ کی اپنی رائے یہ ہے کہ:’’خاکہ نگاری نہ تو شخصیت کی خاک اڑانے کا نام ہے اور نہ شخصیت پر خاک ڈالنے کا نام ہے، بلکہ یہ تو پلِ صراط پر سے گزرنے کا عمل ہے، جبکہ ادیب نما صحافیوں کے خاکے سرکس کے رسّوں پر چلنے کا منظر دکھاتے ہیں‘‘
یہ بات خاکوں کی کتاب ، میری محبتیں،، میں،، بلند قا مت ادیب، اکبر حمیدی۔،، کے عنوان سے اکبرحمیدی کے خاکے میں لکھی ہے۔ اس کتاب میں بیس خاکے ہیں۔ جن میں سے دس خاکے اپنے خاندانی رشتوں اور دس ادبی دوستوں کے ہیں۔ خاندان سے محبت اوررشتوں کا ذکر آپ کی تمام تحریروں میں ملتا ہے اور بکثرت ملتا ہے۔ خاندان ،وطن اور ادب وزبان کے بعد آپ محسن و ہمدرد وطن جرمنی کی محبت سے بھی سرشار ہیں یعنی جس تھالی میں کھاتے ہیں اسکی قدر کرتے ہیں چھید ڈالنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
’’ایٹمی جنگ ‘‘، آپ کے احساسات کی ترجمان تحریر ہے۔ آپ اپنے تین افسانوں ’’ حوّا کی تلاش‘‘ ، ’’گلاب شہزادے کی کہانی‘‘اور ’’کاکروچ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔۔
’’یہ تینوں کہانیاں کرّہ ارض پر انسانیت کو درپیش ایٹمی تباہی کے بارے میں میرے احساس اور میری تشویش کی کہانیاں ہیں۔‘‘
سماجی دائروں میں سیاست دانوں کی سیاست گری سے انسانیت اورمحبت کے جذبوں کا نقصان آپ سے برداشت نہیں ہوتا ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کی انسان سے محبت کو صرف برِ صغیر تک ہی کیوں محدود رکھا جائے۔کرّہ ارض ،اس بے پناہ کائنات میں ایک بے حد چھوٹی سی دنیا ہے۔اس دنیا میں ساری جغرافیائی اکائیاں اپنی اپنی جگہ ایک سچ ہیں لیکن کرّہ ارض خود ایک بڑی جغرافیائی اکائی ہے۔اس دھرتی کے سارے انسان اپنے قومیتی،علاقائی اور مذہبی تشخص کے ساتھ، اپنے اپنے تشخص کو قائم رکھتے ہوئے پوری دھرتی کو ایک ملک بنا لیں اور اس ملک کے باشندے کہلانے میں خوشی محسوس کرنے لگیں تو شاید ایٹمی جنگ کے سارے خطرات ختم ہو جائیں۔لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ پوری دھرتی کو ایک ملک بنانے کا خواب اور وحدتِ انسانی کی آرزو شاید بہت دور کی منزل ہے۔یہ دوری قائم رہے یا ختم ہوجائے، اس کا انحصار تو ساری دنیا کے ملکوں کے باہمی اعتماد اور یقین پر ہے۔ایک عام آدمی کے لیے شاید یہ کسی دیوانے کا خواب ہو،پھر بھی آئیے ہم سب مل کر دعا کریں۔ دنیا میں محبت کے فروغ کی دعا! دھرتی پر نسلِ انسانی کے قائم رہنے کی دعا!‘‘
آپ کی کتاب’’ کھٹی میٹھی یادیں ،، میں آپ کا اسلوب وضاحت سے دکھائی دیتا ہے ۔آپ کے جملوں میں زندگی کی حرارت اور آپکے افکارمیں نازک خیالی کا بھرپور طریقے سے احساس ہوتا ہے۔ سادہ واقعات بھی اسلوبِ بیان کے باعث جو منظر نگاری پیش کرتے ہیں وہ حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہیں۔ کسی نے کہیں لکھا ہے کہ اگر ایک نئی ادبی صنف، یاد نگاری ،، ہوگی تو اسکے بانی یقیناحیدر قریشی قرار پائیں گے۔
انشائیہ نگار کے طور پر بھی آپکی تصنیف بہ عنوان’’ فاصلے، قربتیں ،، ہے یوں آپ نے یہ میدان بھی مار رکھا ہے۔ انشائیہ نگاری دراصل فنی و فکری نقطۂ نظر سے کائنات دنیا اورانسان کے تجزیے کا فن ہے۔ آپ نے کئی جگہ لکھا ہے کہ جب میں نے باقاعدہ طور پر ادبی دنیا میں قدم رکھا اور ادبی رسالہ’’ جدید ادب’‘ کے اجراء کا پروگرام بنایا تو ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک استاد اور رہنما کے طور پران کو ادبی دنیا میں آگے بڑھنے میں مدد دی۔ اسی رہنمائی کی بدولت انہوں نے انشائیہ نگاری کی صنف کو اپنایا۔تنقید نگاری کے فن کو سیکھنے کے لیے آپکی کتاب ’’ہمارا ادبی منظر نامہ‘‘ کا مطالعہ ضرور کرناچاہیے۔ آپ کا تنقیدی انداز بہت باریک بیں ہے جس میں تجربے کے علاوہ فکر کی رسا ئی، مشاہدے کی گہرائی بھی ہے۔
‘’سوئے حجاز ‘‘مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کی زیارتوں کا سفر نامہ ہے۔ جس میں آپ نے مقاماتِ سفرِ حج اور سات عمروں کی ادائیگی کے تاثر کو اتنے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری خود کو انکا ہم سفر پاتا ہے اور یہ ایک ایسا وصف ہے،جو ایک ماہر قلم کارکے پاس ہی ہوسکتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کا تجربہ میرے لیے انوکھا اور خیال آفرین ہے آپ نے تاریخ اور فلسفے کے اشتراک سے اس روحانی اورارضی سفر کو الفاظ کا جامہ دیا ہے اسکی وجہ حیدر صاحب کے افکار کی تابانی، احسا سات کی کشادگی اور شیریں بیانی ہے۔
جنت المعلیٰ ، کی حالت اور سعودی شاہی نظام کی قبر پرستی کے بارے میں انکی اپنی توہم پرستی کا معاملہ اور وہاں سے مٹا دی جانے والی قبروں کو دیکھ کر آپ کا یہ شعر لکھنا شعور کے بہت سے در کھولتا ہے۔
اس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے
میں نے زندہ ہی تری یاد کو دفنایا تھا ،،
اسی طرح ہر مقام کی تاریخ اور فلسفہ اس کتاب کو ارضی اور روحانی گائیڈ بک بنا دیتا ہے۔
اپنے ایک مضمون میں حیدر قریشی صاحب وزیر آغا کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ساختیاتی فکر کے حوالے سے اور اردو تنقید کے وسیلے سے ڈاکٹر وزیر آغا کی سب سے بڑی عطایہ ہے کہ انہوں نے دوسرے ساختیاتی دانشوروں کی طرح مغربی لکیر کی فقیری نہیں کی اور اس کی دانشورانہ چکا چوند سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا ہے اور اس کی خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ اس کے اس عیب کو بھی واضح کیا ہے کہ اس ڈسپلن نے تخلیق کارکو یکسر نظر انداز کر کے انتہا پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ ساختیاتی فکر سے مناسب حد تک استفادہ کے باوجود وزیر آغا مصنف ، تصنیف اور قاری کے رشتوں میں توازن قائم کرتے ہیں،،
میں آپ کو آپکے انہی پیمانوں کی روشنی میں دیکھتی ہوں تو مجھے آپ کے مباحث اورتنقید اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی خو واضح نظر آتی ہے۔ آپ نئے دور کے ایک ایسے جدید اور کثیر المطالعہ ادیب ہیں جس نے روایت کو نئی سوچ سے ہم آہنگ کرکے لکھا ہے۔اللہ آپ کو صحت اور تندرستی کے ساتھ لمبی عمرعطا فرمائے اور زورِ قلم اور زیادہ ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ مضمون حیدرقریشی کی ادبی زندگی کے پچاس سال مناتے ہوئے حلقہ اربابِ ذوق جرمنی کی خصوصی تقریب،منعقدہ 11.12.22 میں پڑھا گیا)