کرسی کا رشتہ ماورائی دنیا سے ملایا جائے تو وہ آدم و حوّا سے زیادہ قدیم قرار پائے گی۔ یہاں اس کرسی پر گفتگو نہیں کی جائے گی نہ اس کرسی کا ذکر ہوگا جہاں کے لوگ اپنی سکونت بتاتے ہوئے شرمایا کرتے ہیں اور جسم کو عریاں کرنے سے اتنا نہیں جھجکتے جتنا جائے پیدائش بتانے میں جھجکا کرتے ہیں۔ جس کرسی کے یہاں اوصاف بیان کیے جا رہے ہیں، وہ بہت ہی دلچسپ حسین اور خوش آیند خیال کی جاتی ہے۔ اس کاتصور ذہن میں آتے ہی فکر و خیال میں سورج طلوع ہونے لگتے ہیں۔ آدمی اس پر بیٹھ کر بغیر پیئے مخمور اور سرشار ہو جاتا ہے۔
کرسی زیادہ اونچی نہیں ہوتی لیکن بیٹھنے والے کا دماغ اتنا اونچا ہوجاتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز سرنگوں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ نشیلی چیزوں کی فہرست تیار کی جائے تو سب سے پہلا نمبر کرسی کو دینا ہو گا ۔ اس میں بڑا کیف، سْرور اور خمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالقِ کائنات نے عرش کے ساتھ کرسی کی تخلیق ضروری سمجھی۔ دنیائے اب و کل میں کرسی نہ صرف جرعۂ کیف آور کا کام کرتی ہے، بلکہ اسے عشق و محبت کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے سرپھروں کی تعداد کم نہیں جو کرسی سے والہانہ لگاؤرکھتے ہیں، وہ اسے حاصل کرنے کے لیے وقت سے لے کر دولت، بلکہ خون کا آخری قطرہ تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا کرتے۔ دنیا کے بہت سے فرمانرواؤں اور سپہ سالاروں نے کرسی کے لیے بڑی سرفروشیاں کی ہیں۔ عرصہ کار زار کو رنگین کیا ہے۔ خون کی نہریں بہائی ہیں۔ کرسی میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کسی نازک اندام محبوبہ اور اس کے خوبصورت خد و خال میں ہوا کرتی ہیں۔ بیوفائی میں کرسی اس سے بھی آگے ہے۔ کتنا ہی گوند لگاکر بیٹھے اس کی نگاہِ خوں آشام بدل جاتی ہے، تو آدمی کو اس طرح نیچے گرادیتی ہے کہ سنبھلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے عشق میں خطرناک رقیبوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ لیلائے کرسی کے فریفتہ جب کسی رقیب سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں تو صلح کا امکان نہیں رہتا۔ انھیں سمجھوتے پر یقین نہیں۔ وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں اترا کرتے ہیں۔
ماضی میں کرسیوں کی تعداد اتنی نہ تھی جتنی اب ہے۔ اقسام بھی محدود تھیں۔ صدارت اور ممبری کی چند کرسیاں ہی تھیں جو میونسپل بورڈ اور جلسہ گاہوں میں یوسف بے کارواں کی طرح اکیلی پڑی رہا کرتی تھیں، پھر بھی دل رْبائی کا یہ عالم تھا کہ ان کے حصول میں بڑے ہنگامے ہوا کرتے تھے، دولت لٹائی جاتی تھی، کبھی زمین کو قطراتِ خوں سے لالہ زار بنایا جاتا تھا۔ طالبانِ کرسی میں سے کسی کو خریدنے کی نوبت آجایا کرتی تھی۔ موجودہ زمانے میں کرسیوں کی تعداد اور اقسام میں جتنا اضافہ ہوا ہے، اتنی ہی صفِ عشاق طویل ہوگئی ہے۔ وہ کیو بنائے یوں کھڑے رہتے ہیں کہ کان صدائے تکبیر پر لگے ہوئے ہیں اور آنکھیں اشارۂ ابرو کی منتظر ہیں۔ ذرا آواز فضا میں گونجے اور نمازِ عشق پڑھنا شروع کردیں۔ کیفیت بالکل وہی ہوتی ہے جس کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے،
باندھ کے صف ہوں سب کھڑے تیغ کے ساتھ سر جھکے
آج تو قتل گاہ میں دھوم سے ہو نمازِ عشق
آج کل وہ روایتی مجنوں پیدا نہیں ہوتے جو ناقۂ لیلیٰ کے ساتھ میلوں دوڑے چلے جایا کرتے تھے۔ ان کی جگہ ایسے دلدادگانِ کرسی عالم وجود میں آرہے ہیں جو اس کی زلفِ گرہ گیر میں اسیر ہوکر بھاگتے نہیں بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ اپنی جگہ تڑپتے ہیں۔ رومانی غزلیں کہتے ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں، اسی طرح ہجر و فراق کی کڑی منزلیں طے ہوجاتی ہیں اور شربتِ وصل پینے کی مسرت حاصل ہوجاتی ہے۔ تو عالمِ سرخوشی میں کرسی کے علاوہ ہرچیز کو فراموش کردیتے ہیں۔ دن رات اسی کے خالِ رخسار کی پرستش میں مصروف رہتے ہیں۔ دل کی ساخت بدل جاتی ہے۔ خون میں بھی کیمیاوی تغیرات ہوجاتے ہیں۔ سرخی کم ہوکر سفیدی بڑھ جاتی ہے۔ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے کہ کرسی کے ان گنت فریفتہ ہیں وہ ان میں سے کسی کو بھی مرکزِ التفات بنا سکتی ہے۔ نئے چہروں کی تلاش کرسی کی تاریخی روایت ہے۔ وہ تو گرفتارانِ بلا پر زیادہ مہربان رہتی ہے۔ ان کے ہجر و فراق کی مصیبتوں پر اسے رحم بھی آجاتا ہے۔ حالانکہ سنگ دلی محبوبیت کا خاص وصف ہے۔ تاہم کبھی معشوق کی نگاہِ مشکل پسندی میں رحم کے جذبات بھی جھلک آجاتے ہیں۔ کرسی کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ اس پر جلوہ فرما ہوتے ہی کائنات قدموں پر جھکی محسوس ہوا کرتی ہے۔ زمین سورج کے گرد گھومنا بھول کر اسی کے محور پر رقص کرنے لگتی ہے، جب کوئی ضرورت مند پوچھتا ہے: اندر آسکتا ہوں؟ ۔۔۔۔تو ہوا موجِ شراب کی شکل اختیار کرنے لگتی ہے۔ فضا نشاط انگیز نغموں سے بھر جاتی ہے اور وہ اپنے وجود کو سب سے زیادہ سربلند سمجھنے لگتا ہے۔ کرسی نیچے سے کھسک جاتی ہے تو آنکھوں میں اندھیرا چھاجاتا ہے۔ ہر طرف کہر کی گاڑھی چادر تن جاتی ہے۔ وہ کرسی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر عہد کرتا ہے کہ زندگی میں ایک بار پھر تجھے آغوش شوق کی زینت بناؤں گا۔ کرسی کی سیاہ اور چمک دار زلفیں ہر لمحہ تصور میں لہراتی رہتی ہیں۔ کرسی زبانِ حال سے کہتی سنائی دیتی ہے۔ مجھ سے وہی جاں فروش ہمکنار ہوسکتا ہے جو شمشیر آبدار کی دھار پر بوسہ دینے کا حوصلہ رکھتاہو۔ کرسی کی نگاہیں ایک ہی آن میں پھر جاتی ہیں، وہ کسی اور کی گردن میں نقرئی بانہیں حمائل کر دیتی ہے۔ کرسی کا ٹھکرایا ہوا بدنصیب ہر وقت اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بیتاب رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ فرقت کی کالی اور لمبی رات جلد سے جلد صبح وصل میں تبدیل ہوجائے، افق مشرق پر وہ ستارا چمکنے لگے جو مسرتوں کا نصیب بن کر نکلا کرتا ہے۔ کرسی کا حصول اور ترک اختیاری نہیں۔ اس کے کچھ اصول ہیں، مگر محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔
کرسی کے شیدائی ساری رکاوٹیں دور کر کے چاہتے ہیں کہ جس طرح ہوسکے جلد اس پر قابض ہو جائیں، لیکن وقت اتنا ظالم اور سنگ دل ہے کہ آرزوؤں کے آبگینوں کو توڑ کر ہی دم لیتا ہے۔ ملک میں کروڑوں صاحبانِ دل آباد ہیں، ان کے سینہ میں دھڑکتے ہوئے قلوب کا جائزہ لیا جائے تو سویدائے دل میں جو چنگاری شعلہ بن جانے کی دھن میں چمک رہی ہوگی، وہ کرسی کے اشتیاقِ بے پایاں ہی کی ہوگی، کرسی کا حسن لازوال ہے اس کی کشش مکان و زماں کی پابند نہیں۔ ہر کرسی میں دل ربائی کا وصف نہیں ہوتا۔ گھر میں کتنی ہی نازک اور آراستہ کرسی پر بیٹھ جائیے اس میں جلوہ افروزی کا وہ لطف نہیں ہوگاجو کسی جلسہ کی کرسی صدارت میں ہواکرتاہے۔ ہزاروں فرہاد طلائی و نقرئی تیشے لیے کرسی کی خاطر جوئے شیرلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہ تگ و دَو کبھی کم نہیں ہوتی۔ کرسی اور بڑی آنکھوں والی شوخ و شنگ معشوقہ میں کوئی فرق نہیں، بلکہ کرسی ہی کوامتیاز حاصل ہے۔ وہ زیادہ موقع پرست طالبِ زر، ہرجائی اور تبدیلی پسند ہے۔ نئے نئے عشاق کو نوازتی رہتی ہے۔ یہ تمنا دانشوری کی علامت ہے کہ قدرت عشق دے تو کسی عشوہ طراز اور ناز آفریں حسینہ کا دے، جو پہلوئے رقیب میں بیٹھ کر بھی عاشق نامراد کو دیکھ کر طنزیہ انداز سے مسکرا تو دیتی ہے۔ اس زہریلے تبسم میں طنز کی کتنی ہی کاٹ ہو، ایک ناز بردار اسے معشوق کی اس ادائے بے نام ہی سے تشبیہ دیتا ہے جس کا حسن و عشق کی ڈکشنری میں کوئی ذکر نہیں۔ کرسی کی تاریخ اوّل سے آخر تک بے نیازی اور تغافل شعاری کادل شکن افسانہ ہے۔ کرسی کی انقلاب انگیز تبدیلیوں کے پیش نظر کرسی نشینوں کو دیدہ وری سے کام لینا چاہیے اور اسے بدلگام گھوڑے کی طرح قابو میں رکھنا چاہیے۔ اس عاشقانہ جذباتی رویّے سے شدید نقصان ہوتا ہے جس میں باگ ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے اور پاؤں رکاب سے نکل جاتے ہیں اور کرسی نشین چیخ اٹھتا ہے کہ،
رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پاہیں رکاب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔