محّدب سے شیشوں کے پیچھے سے نظریں بچا کر
ترا چھت پہ جا کر، یہ سگرٹ جلانا
کبھی میز پر جھک کے خاموش لکھنا
میں سوئوں تو گھر میں دبے پائوں چلنا
مجھے بیش قیمت سی شے کی طرح
موسموں سے بچانا
میں بر آمدے میں جہاں بیٹھ کر
شام کی سرمئی روشنی دیکھتی ہوں
وہیں پاس آکر کوئی بات کرنا
انہی دولتوں سے بھرا ہے یہ دامن برس ہا برس سے
مگر اپنے تازہ محّدب سے شیشوں سے
تم کو میںاب دیکھتی ہوں تو اک درد سا جاگتا ہے
نہ گر میں رہوں تو میر ی فرقتوں کو نبھائو گے کیسے
نہ تم گر رہو اور لینی ہو ں سانسیں، بتائو گے، کیسے؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:ترنم ریاض کی اپنے شوہر سے محبت اورجدائی کے
ڈر سے بھری یہ نظم ان کے سچے جذبوں کا اظہار تھا۔
شاید اسی لئے پروفیسر ریاض پنجابی کی وفات کے معاََبعد
ترنم ریاض بھی وفات پا گئیں۔اللہ دونوں محبت بھرے
میاں بیوی کی مغفرت فرمائے۔آمین( ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔