ابھی مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں
کسی نے میری پلکیں نوچ کر رسّی بنائی
اور پھر اُس رسّی میں میرے خواب باندھے اور پھر میرے
ہی سینے کی اندھیری کوٹھڑی میں قید کرڈالے
اندھیرے میں سجھائی کچھ نہیں دیتا
بس اک لَو ہے لہو کی بوند کے مانند
جس کی ٹمٹماہٹ میں یہ سارے خواب سایوں کی طرح
سینے کے محرابوں سے لپٹے منتظر ہیں جیسے کوئی آکے ان
کے ہاتھ پائوں کھول کر آزاد کردے گا
مگر مجھ کو بہت سے کام ہیں
خود اپنی بے پلکوں کی آنکھیں
دیکھنے کی بھی مجھے فرصت نہیں ملتی
مرے چاروں طرف دنیا ہے
دنیا کے ہزاروں کام ہیں اور میں اکیلا ہوں
اک ایسا حیرتی ہوں جس کی مٹھی سے گزرتی ساعتیں بھی
ریت کے ذرّوں کی صورت دانہ دانہ کرکے نکلی جارہی ہیں
ہاتھ خالی ہورہا ہے اور ابھی مجھ کو بہت سے کام کرناہیں
ابھی اس شام کے ریوڑ کو صبح زرد کی کھیتی تک
اک بوڑھے گڈریے کی طرح سے ہانک کر لانا ہے،
یہ بھی دیکھنا ہے میرے ریوڑ سے کوئی ننھا ستارہ
ٹوٹ کر آفاق تک پھیلے ہوئے اندھے سفر کی دھول میں
غائب نہ ہوجائے
ابھی مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں
کسی کے پائوں کو مٹّی کے جوتوں سے چھڑانا ہے،
کسی کے حلق میں بوئی گئی پچھلی رتوں کی پیاس فصلیں
کاٹنی ہیںاورکسی خاکستری تن پر کوئی پیراہن گل کھینچنا ہے
اے اسیرانِ قفس! مجھ کو بہت سے کام کرنا ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔