"خاموشی"
ایک افسانچہ نگار نے دوسرے افسانچہ نگار سے کہا:"الفاظ خاموشی کی گود میں بے چین ہو جاتے ہیں."
دوسرے افسانچہ نگار نے جواب دیا :"لفظوں کی آلودگی میں روح کہاں اپنا سکون پاتی ہے؟ اس وجہ سے ایک فنکارانہ خاموشی گہری اور گہری ہوتی جاتی ہے…. یوں جیسا کہ ایک شاعر کی غزل کے البیلے مصرعے سکون کی کرسی پر بیٹھے ہوں !"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری زندگی!
میری بیوی چولھے کے پاس بیٹھی ہوئی کھانا پکارہی تھی۔ چولھے سے رَہ رَہ کر دھواں اٹھ رہا تھا۔ جس کی سوزش سے بچے آنکھیں مل رہے تھے اور رَہ رَہ کر سْوں سْوں کرتے ہوئے آنکھوں کے سامنے آئے دھویں کو ہاتھوں کو ہلا ہلا کر بھگا رہے تھے۔ میں ان سب باتوں سے بے پروا چولھے میں پڑی لکڑیوں پر نظریں لگائے بیٹھا تھا۔ میری گمبھیرتا کو دیکھ کر وہ ایک لخت گھبرائی اور جلدی جلدی پھونک مار کر بجھی آگ کو بھڑکانے لگی۔ معاً میں نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ کیونکہ ایک پَل کے لیے مجھے لگا کہ گیلی لکڑی کی طرح میری زندگی مجھ سے نکل کر چولھے میں جا پڑی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔