اردو میں بکثرت پیروڈیاں پیدا کی گئی ہیں۔یہ ساری پیروڈیاں بزورِ بازوپیدا کی جاتی ہیں۔خاص طور پر ایسی پیروڈی لکھنا جس میں زبان اور حُسنِ بیان دونوں کا اہتمام ہو یعنی سونا بھی ہو اور اس پر سہاگہ بھی ہو۔ ہمارے دوست ہمّت رائے شرما نے یہ کام کیا ہے۔ہمّت رائے شرما اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اردو کا وہ ماحول ملا جسے نستعلیق ماحول کہا جا سکتا ہے۔صحیح اور فصیح زبان ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔(یہ گھُٹی آدمی کے سر کے پیچھے کی طرف ہوتی ہے)اور ایک مرتبہ کوئی چیز گھٹی میں پڑ جائے تو آدمی کوشش بھی کرے تو اس سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا۔ہمّت رائے شرما برسوں سے بمبئی میں ہیں ۔غلط اردو سنتے ہیں،غلط اردو شاید پڑھتے بھی ہوں (اردو اخبار پڑھتے ہی ہوں گے)لیکن غلط اردو لکھ نہیں سکتے۔یہی ان کی کمزوری بھی ہے جوخوبی کا درجہ اختیار کر گئی ہے ۔مصّور،شاعر اور نثر نگار ہمت رائے شرمانے جب ’’میاں آزاد فلمی دنیا میں‘‘مضمون لکھا اور ’’آج کل‘‘دلّی کے مدیر نے اسے شائع کیا تو باذوق قارئین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیااور اگر ہمّت رائے شرما ان کے ہاتھ لگ جاتے توشاید قاری اور مضمون نگاردست و گریباں ہو جاتے ۔اس مضمون کی اتنی دھوم ہوئی جو کنہیا لال کپور کے مضمون’’غالبؔ ترقی پسندوں کی محفل میں‘‘کی ہوئی تھی۔ہمّت رائے شرما گو مزاح نگار نہیں ہیں لیکن زندہ دلی میں کسی سے ہیٹے نہیں ہیں۔ہمیشہ متبسم رہتے ہیں اور ان لوگوں سے بہتر ہیں جن کا نام ہی تبسّمؔ ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔
انہیں خوش رہنے کی عادت ہے اور ان کی اس عادت نے ان کی تحریر کو شگفتہ بنا دیا ہے۔ان کی تحریر اور چنبیلی کے منڈوے میں بڑی مشابہت ہے۔(لیلیٰ را بچشمِ مجنوںباید دید)جس طرح ایک خوبصورت سوئمنگ پول میں چاند کا عکس جنّتِ ارضی کا سماں پیدا کرتا ہے بالکل اسی طرح ان ہمّت رائے شرما کی خوش دلی،خوش ذوقی اور سلیقہ مندی(تحریر کی)ان کی تحریر میں برق سی لہرانے لگتی ہے۔میں ان کا بہت قائل ہوں۔معلوم نہیں اتناڈھیر سارا مسالہ ان کے پاس آیا کہاں سے ۔فارسی جانتے ہیں اور ہندوستان کا جو شخص فارسی جانے گا اُردو،اچھی اردو،فصیح اردو اور اعلیٰ درجے کی اردو جانے گا ہی۔محاورے ان کے آگے چوبداروں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے۔حسین و جمیل الفاظ دوڑے دوڑے آئیں گے۔آپ کو میری بات مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے؟ایک ٹکڑا پیش ہے:
’’چو طرف سبزۂ روئیدہ کی لہک اور گلہائے مشک بیز کی مہک۔۔واللہ کیا دلکش و فرح بخش مقام ہے، ندرت التیام ہے۔آم کے گھنے پیڑکے نیچے ایک بینچ کالی دیکھا اور اس پر جا ڈٹے۔ٹھنڈی ہوا جو چلی تو جھٹ پاؤں پھیلا دیے۔سمجھا نہ سوچا کہ اتنے میں نیند نے آدبوچا۔صبح کے تھکے ماندے تو تھے ہی،گھوڑے بیچ کر ایسے سوئے کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا۔اسی عالم میں خواب جو دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔دیکھتے کیا ہیں کہ باغ کے اُس کونے میں ایک حسینہ نازک اندام،نازک خرام،کمسن،جادو جمال،زہرہ تمثال،شوخ و طنّاز،خوش انداز،سراپا ناز،زیورات سے مزیّن،لباس گراں بہا زیبِ تن کیے خراماں خراماں چلی آرہی ہے۔‘‘
یہ اندازِ تحریر ہے کلاسیکی رچاؤ سے مرصّح اور فصاحت سے لبریز۔یہ تو ہوئی ابتدائی کاروائی۔میاں آزاد جب بمبئی کے ٹالی لینڈ میں پہنچتے ہیں اور ایک اکسٹرا سپلائر سے اُن کی ملاقات ہوتی ہے تب انہیں پتہ چلتا ہے کہ لکھنئو اور بمبئی میں کتنا فاصلہ ہے۔ریل کے ٹکٹ پر جو فاصلہ درج ہے اُس سے کئی ہزار گنا زیادہ۔یہاں ہمّت رائے شرما کی منظر کشی،اور نقل کشی کی داد دینی پڑتی ہے۔کئی علاقوں کی بولی ان کے قلم کی زد میں آتی ہے اور پڑھنے والا شرما جاتا ہے۔یہی شرما جی کا کمال ہے۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ شرما جی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔’نکاتِ زباندانی‘لکھ کر انہوں نے برسوں پہلے ثابت کردیا تھا کہ وہ خاندانی اردو بولنے اور لکھنے کے ماہرین میں سے ہیں۔ایک دن تو انہوں نے مجھے افسردہ اور پریشان دیکھ کر ’خارِ مغیلاں‘کے معنے بھی بتلائے تھے اور اس دن مجھے معلوم ہوا کہ خارِ مغیلاں کی داستان کیا ہے،ورنہ میں تو خارِ مغیلاں کو عہدِ مغلیہ کی کوئی یادگار سمجھے بیٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔