معاصر اْردو تنقید پر جب کبھی یہ اعتراض کیا جائے کہ اس میں مغربی متون سے جی بھر کر استفادہ کیا جاتا ہے اور کہیں ترجمہ تو کہیں چربہ سازی کی مدد سے اْردو تنقید کو'ثروت مند' بنایاجا رہا ہے،اس سادہ سے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ہمارے یار طرح دار یعنی نقادانِ ادب کے پاس یہ نرالی منطق ہوتی ہے کہ چوں کہ ہمارا معاشرہ ہر قسم کی پراڈکٹ مثلاً صابن،ٹوتھ پیسٹ اور ادویات وغیرہ انگریزی ممالک کی استعمال کرتا ہے تو اگر مغرب کے تنقیدی اصول وہاں سے لے آئے تو اس میں کیا برائی ہے؟برائی تو خیر کیا ہو گی پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ اس میں اچھائی کا پہلو کون سا ہے؟
ادبی روایت یا تہذیبی و ثقافتی ورثے کی مثال صابن اور شیمپو والی نہیں ہوتی کہ حسب ضرورت استعمال کر لیے جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ہر تہذیب اپنی بْنت میں کچھ ایسے مخصوص عناصر رکھتی ہے جو اسے دیگر معاصر تہذیبوں سے ممتاز بناتے ہیں ،یہی سبب ہے کہ آج مغربی تہذیب کے رنگا رنگ جلوے اور مشرقی تہذیبوں کے دھاگے اپنی اپنی شناخت کے تحت زیر بحث لائے جاتے ہیں۔میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ امریکا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں مولانا الطاف حسین حالی اور کلیم الدین احمد کو محض اس شوق میں پڑھایا گیا ہو کہ یہ لوگ ان کی مغربی روایات کو مستحکم کریں گے۔ثقافتی شناخت اور تہذیب سانچے کو بہ ہر صورت مد نظر رکھ کر بات کرنا ہو گی ورنہ اس ثقافتی یلغار میں مغرب تو اپنی شناخت کے ساتھ قائم رہے گا ہماری شناخت مسخ ہو جائے گی۔
نئے خیالات سے استفادہ بْری بات ہرگز نہیں تاہم ان سب کو سمیٹ کر اپنی ثقافت پر منڈھ دینا خطرناک بات ہے۔معاصر تنقید شعوری یا لاشعوری طور پر مغربی خیالات کی جگالی میں مصروف ہے یہ عمل بالآخر جس پستی پر منتج ہو گا اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کا جاننا ضروری نہیں ہے۔بیشتر معاصر اردو نقاد محض اپنی جعلی اور مستعار علمیت کو فروغ دینے میں غلطاں ہیں۔ان کی کتابوں میں سے اگر مغربی متون نکال دیئے جائیں تو پیچھے صرف کتاب کی قیمت اور نقاد کی تصویر رہ جاتی ہے۔پبلشرز کا ایڈرس اور ای میل بھی اسے بچ جانے والے سرمائے میں شامل سمجھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔