ایک دن ایلورا کی کچھ مورتیاں خاص طور سے اجنتا کی تصویروں سے ملنے گئیں اور اپنا دکھ درد بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ تاج محل کی موجودگی سے بہت پریشان ہیں۔
’’بہت سے لوگ ہماری خوب صورتی کی تعریف کرتے کرتے جب تاج محل کے گن گانے لگتے ہیں تو سر سے پاؤں تک آگ لگ جاتی ہے۔ جی تو چاہتاہے ان سے کہہ دیں کہ اگر تاج محل اچھا لگتا ہے تو جاؤ وہیں ایڑیاں رگڑو، یہاں کیوں جھک مار رہے ہو؟ لیکن پھر اپنا غصہ اپنے اندر ہی سموکر رہ جاتی ہیں۔‘‘
ایلورا کی ایک مورتی نے ابھی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ دوسری بولی،’’آج تو غضب ہوگیا۔ دو سیاح کہیں آگرہ ہوتے ہوئے ہمارے ہاں آئے تو میرے سامنے کھڑے ہوکر تاج محل کا ذکر یوں لے بیٹھے جیسے وہ ایلورا میں نہیں تاج محل میں کھڑے ہیں۔جلی بھنی تو میں پہلے ہی بیٹھی تھی، ان کا رویہ دیکھ کر تو جی میں آئی کہ ابھی دیوار سے سیدھی ان پر گر کر ان کاسر پھوڑ کر رکھ دوں۔ لیکن میرے اندرونی غصے کو اس مورتی نے تاڑلیا۔ اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر روک لیا۔ ورنہ آج تو ان کا کچومر نکل جاتا۔‘‘
اجنتا کی تصویریں تو جیسے پہلے ہی بھری بیٹھی تھیں۔ ایلورا کی ان دونوں مورتیوں کی بات سن کر ایک نے کہا،’’ہم تو بہن پہلے ہی اس وجہ سے اتنی پریشان ہیں کہ اکثر دل میں آتی ہے کہ جاکر تاج محل کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔ آخر دھرا ہی کیا ہے وہاں۔۔۔ سوا اس کے کہ سفید سنگ مرمر کو قرینے سے جڑ کررکھ دیا گیا ہے اور بیگم ممتاز محل اپنے شوہر کی قبر کے بغل میں اطمینان سے سو رہی ہیں۔ ذرا بیگم کا نخرہ تو دیکھو کہ مقبرہ بھی سفید سنگ مرمرکا بنوایا ہے، جیسے اس کے بغیر مرنے پر بھی آنکھ کھل جاتی!‘‘
دوسری تصویر اترا کر بولی، ’’قبروں کے علاوہ وہاں ہے کیا، کلا کے نام پر تو وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’تم نے دیکھا ہے اسے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’میری جاتی ہے جوتی۔ ساری دنیا تو ہمیں دیکھنے آتی ہے ہم کسی کو دیکھنے کیوں جائیں؟‘‘
’’لوگ دیکھنے تو آتے ہیں اور آتے بھی رہیں گے لیکن جب کوئی ہمیں دیکھتا ہوا اس کاذکر چھیڑ دیتا ہے تو دل میں کانٹے چبھنے لگتے ہیں۔‘‘
’’تو چلو پھر آج اس کانٹے کو ہمیشہ کے لیے نکال ہی دیا جائے۔‘‘
’’ہم لوگ ابھی مل کر چلتے ہیں اور تاج محل کی ساری خوب صورتی ملیامیٹ کرکے رات کو ہی واپس آجائیں گے۔‘‘
یہ تجویز جیسے پہلے ہی سب کے دل میں تھی۔ اسی وقت ایلورا کی مورتیوں اور اجنتا کی تصویروں کی اچھی خاصی تعداد آگرے کی طرف چل دی۔مورتیاں اور تصویریں ابھی تاج محل کی طرف جانیوالے اس راستے پر ہی پہنچی تھیں، جس کے دونوں طرف پھولوں کی بہار ہے کہ سامنے تاج محل کو اندھیرے میں چمکتادیکھ کر ہی کوئی بے اختیار کہہ اٹھی،’’جگہ تو خوب صورت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
دوسری نے طنز کیا: ’’اگر تمہارا ابھی سے یہ حال ہے تو ہم تمھیں یہیں چھوڑ جائیں گے۔‘‘ اس پر پھر ایک قہقہہ گونج گیا۔
جب وہ کچھ اور آگے گئیں، جہاں فوارے چھوٹتے ہیں تو ایک مورتی بولی، ’’یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ یہاں کی فضا گپھاؤں کے مقابلے میں بہتر ہے۔‘‘ دوسری چہکی۔ ’’ذرا آگے بڑھ کر قبروں کی فضا دیکھو گی تو پھر پتہ چلے گا کہ بیگم بے چاری پر کیا گزرتی ہوگی۔‘‘ اور آگے بڑھنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے سارا تاج محل دیکھ لیں، اس کے بعد ہی اسے برباد کیا جائے گا۔اس سے یہ منصوبہ بنانے میں بھی آسانی ہوگی کہ اسے کس طرح نیست و نابود کیا جائے۔
تاج محل دیکھتے ہوئے یوں تو ان میں سے ہر ایک دل ہی دل میں اس کی خوب صورتی کی قائل ہوچکی تھی۔ لیکن دشمنی میں آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ہے پھر خوب صورت چیز بھی بدصورت دکھائی دیتی ہے اس لیے ہر ایک اس میں کوئی نہ کوئی خامی ہی نکال رہی تھی۔تاج محل کو باہر سے دیکھنے کے بعد آخر وہ اس جگہ پہنچیں جہاں ممتاز محل کی قبر ہے۔ایک مورتی چلائی۔ ’’بھئی جلدی سے باہر چلو۔ میرا تو یہاں دم گھٹ رہا ہے۔‘‘
’’میں بھی یہی محسوس کرتی ہوں کہ جلدی سے جس کام کے لیے آئے ہیں وہ کریں اور پھر چلیں۔‘‘ دوسری نے رائے دی۔
’’تو میں شروعات بیگم سے ہی کرتی ہوں۔‘‘ ایک اور کو جوش آگیا اور اس نے آگے بڑھ کر بیگم کے چہرے سے کفن الٹ دیا۔ بیگم کا چہرہ نور میں نہایا ہوا اس طرح تروتازہ تھا جیسے ابھی ابھی تھک کر تھوڑی دیر کے لیے سوگئی ہوں۔ کچھ لمحوں تک سب کی سب مورتیاں بے خود ہوکر بیگم کے چہرے کو دیکھتی رہیں۔ پھر ایک بڑے سے شیشے میں ایک مورتی نے پہلے خود کو دیکھااور پھر بیگم تاج محل کو، اور پھر خوشی اور حیرانی سے چلاتی ہوئی بولی، ’’ارے یہ تو میں سو رہی ہوں!! دیکھو! دیکھو! ہو بہو میں ہوں۔ کلاکار نے اسی کو دیکھ کر مجھے بنایا ہے۔ مجھے تو اپنی زندگی دیکھنے کومل گئی ہے۔‘‘
’’ارے تاج محل کو ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ روز نہیں ہوئے اور تم تو اس سے سینکڑوں برس پرانی ہو۔‘‘ایک تصویر نے اعتراض کیا
دوسری بولی، ’’تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا ہے۔ جب تمہیں بنایا گیا تھا اس وقت بی بی ممتاز محل توپیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے بیگم کے شاہی رعب میں آکر یہ اپنے اوسان کھو بیٹھی ہے۔‘‘
’’تو پھر میں نے ہی گپھاؤں سے آکر ممتاز محل کے روپ میں جنم لیا ہوگا۔یقین نہیں آتا تو تم لوگ بھی دیکھو۔ یہ بالکل میں ہوں۔ بہرصورت یہ ہے میری ہی زندگی کاروپ۔‘‘
غصے میں آکر اب کی بار اجنتا کی ایک تصویر آگے بڑھی۔اس نے ایک نظر بیگم کو دیکھا اور پھر شیشے میں اپنا عکس دیکھ کر چیخی،’’ارے! میری شکل بھی بیگم سے ملتی ہے! اس قبر میں تو میں سو رہی ہوں۔‘‘ اور آخر میں وہ سب اس نتیجے پر پہنچیں کہ ممتاز محل اور وہ سب ایک ہی روپ ہیں۔ ایک ہی حسن۔
جس مورتی نے بیگم کا کفن الٹا تھا، اس نے اپنی زندگی کو ایک بار پھر دیکھا اور پھر بڑے احترام سے بیگم کے چہرے کو پھر اسی طرح ڈھک دیا۔ اتنے میں کوئی مورتی باہر سے ڈھیر سے پھول لے آئی۔ انہیں وہاں رکھ کر واپس آتے ہوئے ہر مورتی بار بار پلٹ کر تاج محل کو دیکھ رہی تھی، اور ہر ایک کے دل میں یہ دکھ تھا کہ وہ ہرلمحے اپنی زندگی سے دور ہوتی جارہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔