تب قابضین آ گئے، گھر دینا پڑ گیا
ہم چاہتے نہیں تھے مگر دینا پڑ گیا
تاریخ نے جو ہم کو فراموش کر دیا
ہم کو خراج ، بار ِ دگر دینا پڑ گیا
پھر دیکھتے ہی دیکھتے کایا پلٹ گئی
دستار چھین لی گئی ، سر دینا پڑ گیا
پرپیچ راستوں میں تو منزل ہی کھو گئی
رہزن کو سارا زاد ِسفر دینا پڑ گیا
داد ِہنر تو مل نہ سکی بادشاہ سے
معمار کو ہی دست ِہنر دینا پڑ گیا
منصف کے فیصلے کی بھی منطق عجیب تھی
دیوار چھوڑ دی گئی ، در دینا پڑ گیا
ہم کو معاہدے کی بھنک بھی نہ پڑ سکی
نجمیؔ ، شجر کے ساتھ ثمر دینا پڑ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔