آگ اپنے خون سے آخر بجھانی پڑ گئی
کس قدر مہنگی اسے شعلہ بیانی پڑ گئی
صبر کو میرے جو میری بے بسی سمجھے رہا
دیکھ کیسے اُس پہ میری بے زبانی پڑ گئی
ایک مدت سے الگ ہیں جب ہمارے راستے
پھر مِرے قصے میں کیوں تیری کہانی پڑ گئی
تجھ تلک پہنچا ہوں خاصی دیر سے عمرِ کہن
پہلے آنا تھا مگر رہ میں جوانی پڑ گئی
اعتبار اک دوسرے پر کب ہمیں تھا زندگی
جھُوٹی مُوٹی دوستی تھی اور نبھانی پڑ گئی
مُشک جیسی کوئی بھی شے کب چھُپانے سے چھپی
آپ کو پھر کس لئے صاحب چھُپانی پڑ گئی
خوب واقف تھے کسی کے پیار سے حیدرؔ مگر
آزمائی چیز پھر سے آزمانی پڑ گئی
٭٭٭