مرے کمرے کی کھڑکی سے اُتر کر آنے والی روشنی
باہر سے کیسی لگتی ہے!میں نے کبھی دیکھا نہ تھا
اُس نے کہا…خاورؔ…
اِدھر دیکھو
اِدھردیکھو مری آنکھوںمیں گہرے زرد سورج کے شکستہ عکس میں
جو ڈوبنے کا دکھ ہے ، اُس کو دیکھو، پھر
کمرے میں جھانکو اور بتائو!میز کے اوپر
پڑے کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھی نظموں کی
سطروں اوراَدھوری خواہشوں پر کس طرف
سے آنے والی روشنی لپٹی ہوئی ہے!!
میں نے دیکھا
اُس کی آنکھوں میں کئی صدیوں کا گہرا زرد سورج تھا کہ جس کا
عکسِ وارفتہ مری نظموں کی سطروں اور ادھوری
خواہشوںکی شام سے لپٹا پڑا تھا اور کمرا دونوں
سمتوں سے مقفّل تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔