مجھے زمین نے رکھا نہیں امان کے ساتھ
کہ ربط ٹوٹ گیا جب سے آسمان کے ساتھ
تھکا گیا تھا کسی کا وہ ہمسفر ہونا
میں چل رہی ہوں ابھی تک اسی تھکان کے ساتھ
میں خالی ہاتھ کھڑی ہوں مقابلے میں ترے
اگرچہ تیر نہیں ہے مری کمان کے ساتھ
سمجھ سکا نہ کبھی بھی تو میری تنہائی
گو تیرا گھر بھی رہا ہے مرے مکان کے ساتھ
کچھ اس لئے بھی یہ دنیا نہیں بنی میری
مرا مزاج نہ مل پایا اس جہان کے ساتھ
میں ہجر بھول گئی تھی وصال کی رت میں
کہ ریگزار بھی پڑتا ہے گلستان کے ساتھ
سحرؔ میں ناؤ محبت کی ہوں مگر قسمت
کہ بن سکی نہ مری اپنے بادبان کے ساتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔