اجل سے بے خبر، بیٹھے ہوئے ہیں
پرندے تار پر بیٹھے ہوئے ہیں
جدھر میں نقد ِ جاں لے کر کھڑا ہوں
ادھر سب مفت بر بیٹھے ہوئے ہیں
میں پنچائت میں جن کا منتظر تھا
وہ اپنے اپنے گھر بیٹھے ہوئے ہیں
یہاں ابلیس تو مسند نشیں ہے
فرشتے خاک پر بیٹھے ہوئے ہیں
مرے مکتوب کھولے جا رہے ہیں
وہیں سب نامہ بر بیٹھے ہوئے ہیں
مری بنیاد شائد ہل چکی ہے
سبھی دیوار و در بیٹھے ہوئے ہیں
جو تھے مفرور اک مدت سے نجمیؔ
وہ بن کر معتبر بیٹھے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔