میں،تم اورمیرے بجھے ہوئے دن
وقت کی شاخ سے
زرد پتّوں کے مانند ٹوٹے ہوئے
جتنے دن؍تیرے بن
میری آنکھوں کے برزخ میں آکر گرے جانِ جاں!
پوچھتے ہیں بتا!
کون سے پھول تھے،جن کی کلیوں کو مَس کرکے
اپنی دوپہروں کا جادو جگاتے ہوئے
اپنی شاموں کی پیشانیوں پر ستارے بناتے ہوئے
کس افق زار میں ڈوبناتھاہمیں
وہ افق،آسماں اور وہ کار ِ جہاں؍ہے کہاں!
ہم تو یوں تیری پلکوں پہ آکر گرے تھے کہ بس
پھر وہیں جم گئے
اب مہہ و سال کی جمع تفریق میں کس طرح آئیں گے
ہم نہ صرفے گئے اور نہ برتے گئے
اور حساب و کتابِ عمل میں کہیں کچھ نہیں
تیری آنکھوں کے برزخ میں
بے نام وبے مایہ کب سے پڑے، اپنے ہونے
نہ ہونے کی تصویر ہیں
پابہ زنجیر ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔