’’امی امی رمضان قریب آرہا ہے اور تمام شاپنگ مال اور دکانیں کرونا کی وجہ سے بند ہیں ہم عید کے کپڑے کیسے بنائیں گے؟‘‘ عدیلہ نے رونی صورت بنا کر ماں سے سوال کیا ۔
شازیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا’’ میری جان بڑے کہتے ہیں کہ (روغ صحت اختر دے) تندرستی عید ہے، ہم ہر سال نئے کپڑے پہن کر عید مناتے ہیں اگر اس عید پر پرانے کپڑے پہن لیں گے تو کوئی قیامت تو نہیں آئے گی ناں۔ بس یہ دعا کرو کہ اس وبا کرونا سے زندہ سلامت بچ جائیں تو یہی ہماری عید ہوگی۔‘‘۔۔ لیکن کم عمر عدیلہ کی سمجھ میں ماں کی بات نہیں آرہی تھی۔ یوں بھی اس کو پتہ تھا کہ ماں سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے وہ مجبورا ًچپ ہو گئی۔شام کو بابا کے گھر آنے پر ان سے بات کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے کمرے میں جا کر بے دلی سے کتاب کھول کر بیٹھ گئی لیکن اس کی سوچ نئے کپڑوں میں اٹکی ہوئی تھی۔ شام کو کھانا کھاتے ہوئے عدیلہ نے اپنے بابا سے کہا کہ’’ بابا اس عید پر ہم نئے کپڑے بنائیں گے نا؟‘‘بابا نے کہا کہ’’ یہ ڈیپارٹمنٹ آپ کی امی کا ہے۔ میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا ہاں البتہ اگر پیسوں کی ضرورت ہے تو میں دے دوں گا‘‘۔عدیلہ نے کہا کہ ’’بابا دکانیں سب بند ہیں ہم شاپنگ کرنے کیسے اور کہا ں جائیں گے؟‘‘ ہارون نے شازیہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا کہ’’ ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔‘‘ شازیہ بیگم نے کہا کہ’’ کھا نا ٹھنڈا ہو رہا ہے پہلے کھانا کھا لیں پھر اس موضوع پر بات کر یں گے‘‘۔عدیلہ کو پتہ تھا کہ ماں ،ابو کی توجہ اِدھر اُدھر کرنا چاہتی ہیں۔وہ ہاشم سے کہنے لگی’’ بھائی آپ اس عید پر کس کلر کے کپڑے لو گے؟‘‘۔۔’’ہم دونوں بھائی اس بار سفید کپڑے بنائیں گے‘‘ ہاشم نے عدیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ہاشم عدیل اور عدیلہ سے چار سال بڑا تھا ،جب کہ عدیلہ اور عدیل جڑوا ں تھے اور ہر وقت آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ عدیلہ ہاشم سے بہت پیار کرتی تھی اور ہاشم بھی عدیلہ سے بہت شفقت سے پیش آتا تھا اور اس کا خیال رکھتا تھا۔ شازیہ بیگم مزاج کی نرم تھی لیکن حد درجہ کفایت شعاری نے کنجوسی کی شکل اختیار کر لی تھی جس سے عدیلہ کو بہت چڑتھی کہ ماں کو ہر وقت ہر کنجوسی کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ ایسا کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ شازیہ بیگم عدیلہ پر ہاتھ اٹھانے سے دریغ نہیں کرتی تھی۔ عدیلہ آٹھویں جماعت میں تھی تو شازیہ نے اس کی منگنی اپنی بڑی بہن کے بیٹے سے طے کر دی اور عدیلہ سے نہ کچھ پوچھا اور نہ کچھ بتایا۔خالہ ایک دن اچانک اپنی بیٹیوں کے ساتھ آئی اور سادگی سے عدیلہ کو نعمان کے نام کی انگوٹھی پہنا کر چلی گئی۔عدیلہ کے لیے یہ سب کچھ اتنا اچانک تھاکہ وہ حیران و پریشان ہو گئی تھی۔خالہ کے جانے کے بعد جب اس نے ماں سے گلہ کیا کہ آپ کو مجھے کم از کم بتا تو دینا چاہیے تھا، تو ماں نے جواب دیا کہ’’ تم نے بھنگڑے ڈالنے تھے۔‘‘۔۔۔’’نہیں امی میں پارلر سے تیار ہوتی میک اپ کرتی بالوں کا خوبصورت سٹائل بناتی لڑکیوں کے کیسے کیسے ارمان ہوتے ہیں اپنی منگنی کے حوالے سے‘‘۔ماں نے فوراََ ہی ًخاموش کر دیا’’ ہاں ہزاروں روپے برباد کرنے ضروری ہوتے ہیں۔پیسے درختوں پر لگتے ہیں توڑو اور اڑاؤ۔ سارا دن تمہارے بابا دفتر میں جان گھلاتے ہیں پھر تنخواہ لے کر آتے ہیں اس مہنگائی میں گھر کا خرچ کیسے پورا ہوتا ہے،میں جانتی ہوں اور مہارانی کے نخرے دیکھو۔ شکر کرو کہ خالہ کے گھر رشتہ ہوا اگر غیروں میں رشتہ ہوتا تو لاکھوں کا جہیز دینا ہوتا۔ تمہاری خالہ کو ہمارے حالات کا اچھی طرح علم ہے تبھی تو سادگی سے منگنی کی ہے‘‘عدیلہ کا موڈ سخت خراب ہوا اور اپنے کمرے میں جا کر خوب روئی کافی دیر رونے کے بعد اٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر خالہ کے لائے ہوئے تحفے دیکھنے لگی۔ سب کپڑے بہت پیارے اور مہنگے بوتیک کے تھے ،دل خوش ہوا۔ ویسے نعمان سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی وہ تو اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی تھی جواب نا ممکن لگتا تھا کیونکہ اس کے خاندان میں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔زیادہ سے زیادہ میٹرک کرنے کے بعد شادی کر دی جاتی تھی۔رمضان شروع ہو گیا لیکن پہلے سے جیسا مزہ نہ تھا کیونکہ دکانیں بند ہوتی تھی اور چٹپٹی چیزیں بازار سے منگوانے کے بجائے گھر میں بنانی پڑتی تھی اوپر سے شدید گرمی۔ پندرہ رمضان کے بعد عدیلہ نے عید کے کپڑوں کی رٹ لگانی شروع کر دی اور اٹھتے بیٹھتے نئے کپڑے، نئے کپڑے کرنے لگی۔ گھر سے نکلنا ختم ہو چکا تھا صرف ہارون ڈیوٹی پر جاتے اور باقی سب گھر والے گھر میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ہارون جب ڈیوٹی سے واپس آتے تو ایسا لگتا کہ محاذجنگ سے واپس آئے ہیں۔گھر کے گیٹ پر جوتے بدلتے وہاں سینی ٹا ئیزر سے ہاتھ دھوتے اور پھر سیدھا غسل خا نے جا کر نہاتے ،کپڑے بدلتے تو پھر گھر کے کسی فرد سے مل سکتے تھے۔شازیہ بیگم انتہائی وہمی خاتون تھیں اور ہارون یہ ساری کاروائی اْن کے وہم کی وجہ سے کرنے پر مجبور تھے۔شازیہ بیگم دل کی مریضہ تھیں ان کی عمر 50 سال سے تجاوز کر چکی تھی ایک تو شادی دیر سے ہوئی اور پھر شادی کے پانچ چھ سال تک اولاد کی دولت سے محروم تھیں کافی علاج اور دعاؤں کے بعد اللہ نے شادی کے ساتویں سال ہاشم دیا ، اور اس کے بعد عدیل اور عدیلہ جڑواں پیدا ہوئے۔ شازیہ اور ہارون کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ہارون بینک میں کام کرتے تھے۔لاک ڈاؤن میں جب تمام سکول کالج اور دفاتر بند ہو گئے تو بینک میں تمام عملے کو کہا گیا کہ دو گروپ میں کام ہوگا۔ایک گروپ ایک دن اور دوسرا گروپ دوسرے دن آئے گا۔ اس طرح ہارون تین دن بینک جاتے اور تین دن گھر پہ ہوتے جبکہ شازیہ اْن کے گھر سے نکلنے پر سخت پریشان ہوتی تھیں لیکن نوکری کرنا مجبوری تھی تو اس نے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیا تھا جس سے ہارون کو سخت چِڑ تھی ۔اس عید پر گاؤں نہیں جائیں گے گھر پر عید منائیں گے شازیہ بیگم نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو ہارون کے ساتھ ساتھ بچے بھی حیران تھے۔ ہارون نے پوچھا کہ کیوں کیا تم خرچے کی وجہ سے ایسا کہہ رہی ہو؟ تو شازیہ بیگم نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کہ نہیں کرونا کی وجہ سے کہہ رہی ہوں کیا پتہ کس کس کو یہ بیماری لگ گئی ہو اس لیے اس عیدپر گاؤں نہیں جائیں گے بلکہ سادگی سے گھر پر خاموشی سے عید منائیں گے۔ بچوں نے احتجاج کیا لیکن شازیہ کی بات حرف ِآخر ہوتی ہے اس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی تھی۔عدیلہ خوش تھی کیونکہ اس کے پاس عید کے نئے کپڑے نہیں تھے جبکہ باقی تمام کزنوں نے یقینا نئے کپڑے بنائے ہوں گے جبکہ عدیلہ پرانے کپڑوں میں ہوتی تو سب کے طنز کا نشانہ بننے سے اچھا ہے کہ گھر پر رہیں۔
افطاری پر شازیہ بیگم کی طبیعت خراب ہو گئی ایک دو دن سے ہلکا بخار تھا اس نے بخار کی گولی لی، بخار ٹھیک ہو گیا لیکن طبیعت میں سْستی تھی۔افطاری کے بعد بخار بھی تیز ہو گیا اور گلے میں درد کے ساتھ سانس لینے میں دشواری محسوس کرنے لگیں۔ شازیہ بیگم کی طبیعت دیکھ کر عدیلہ گھبرا گئی۔ ابو کو زور سے آواز دی’’ ابوآئیں دیکھیں امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘ ہارون ،ہاشم اور عدیل جلدی سے آئے۔ شازیہ بیگم کی سانس اُکھڑ رہی تھی۔ہارون جلدی سے گاڑی نکالنے لگے اور بیٹوں سے کہا کہ ہاشم آپ امی کے ساتھ بیٹھو اور عدیل آپ گھر پر عدیلہ کے ساتھ رکو اور ان کا خیال رکھو دونوں نے کہا ہم بھی جائیں گے ۔شازیہ بیگم نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شازیہ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ ایمرجنسی میں ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد بتایا کہ شازیہ بیگم کو کرونا کے علامات ہیں یہ سن کر ہارون حیران رہ گیا اس نے ڈاکٹر سے کہا کہ یہ تو دو ماہ سے گھرسے باہر نہیں نکلیں، نہ کسی سے ملنے گئیں نہ کوئی ہمارے گھر آیا۔ گھر میں سے صرف میں تین دن ڈیوٹی ے لیے جاتا ہوں اور واپسی پر تمام احتیاطی تدابیر اپنانے کے بعد گھر والوں سے ملتا ہوں ان کو کرونا کیسے ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر نے شازیہ بیگم کوآکسیجن ماسک لگاتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا۔ ویسے علامات تو کرونا ہی کی ہیں۔ ہارون بے یقینی سے ڈاکٹر کو دیکھنے لگے۔ہاشم، ابو کی اجازت سے ہسپتال کی مسجد میں تراویح پڑھنے چلا گیا اور ماں کے لیے دیر تک دعائیں کرتا رہا۔ادھر عدیلہ نے خالہ کو فون کر کے امی کی حالت کے بارے میں بتایا خالہ بھی پریشان ہو گئی اور عدیلہ کو تسلی دینے لگی کہ تم پریشان نہ ہو وہ جلدی ٹھیک ہو جائیںگی۔ ادھر شازیہ بیگم کی حالت ٹھیک ہونے کے بجائے مسلسل بگڑتی چلی گئی اور سانس مزید خراب ہونے لگی آخر ڈاکٹروں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد ان کو آئیسولیشن وارڈمیں منتقل کر دیا اور ان کو مصنوعی تنفس کی مشینوں پر ڈال دیا گیا۔ شازیہ بیگم کے مامو ں زاد بھائی ڈاکٹر جلال سرکاری ہسپتال کے بورڈآف ڈائریکٹرز میں شامل تھے۔ ہارون ان کے پاس گئے اور ان کو شازیہ کے بارے میں بتایا۔ڈاکٹرجلال صاحب ہارون کے ساتھ شازیہ کو دیکھنے آئے اور تمام ڈاکٹروں سے شازیہ کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی۔ اس طرح شازیہ بیگم کا طبی معائنہ دن میں دو تین بار ہونے لگا ،اچھی سے اچھی دوائی ملنے لگی لیکن شازیہ کی حالت بدستور ویسے ہی تھی۔ تین چار دن ہسپتال میں علاج کے باوجود شازیہ اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکیں اور موت کی وادی میں چلی گئی۔ شازیہ کی موت سے گھر میں کہرام مچ گیا عدیلہ نے ماں کی موت کا سنا تو چیخ چیخ کر رونے لگی۔خالہ، مامو ں، دادا، دادی، نانو سب کو فون پر رو رو کر امی کی موت کا بتایا سب نے افسوس کا اظہار کیا لیکن اس وبا کی وجہ سے کسی نے جنازے میں شرکت نہ کی۔ ماں کی تدفین جیسے تیسے ہوگئی۔ لیکن عدیلہ بالکل خاموش ہو گئی وہ زبان سے کچھ نہیں کہتی تھی لیکن آنکھوں سے آنسو بہتے تھے اب وہ عید کے کپڑے بھی بھول گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔