امریکی ادیب ہرمن میلول(Herrmann Melville ) 1891ء میں فوت ہوئے۔ انہوں نے 1850ء میں ’’امریکی ادب‘‘ کے حوالے سے لکھا تھا:
’’ امریکیوں کو اپنی خواتین لکھاریوں پر فخر ہونا چاہیے۔ اگرچہ ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ ان خواتین لکھاریوں کو اپنی قریبی دوستوں کے ساتھ مل کر اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہیے نہ کہ گھر گرہستی میں الجھے رہنا چاہیے اور خود کو بھول جانا چاہیے۔ آپ یقین کریں انگلستانیوں کی نسبت ہم میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پر ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے۔ ہم میں ادبی طور پر ایسے لوگوں کی کمی ہے جو اپنے آپ میں دبستان ہوں۔ اگرچہ یہاں کچھ لوگ ایسے موجود ہیں مگر کم تعداد میں ہیں۔ ہمیں اپنے درمیانے درجے کے بچوں اور خواتین کی تعریف کرنی چاہیے تاکہ ہماری زمین کے بہترین بچے سامنے آسکیں۔
ایک بار میرے کیرولینا کے ایک گرم دماغ کزن نے کہا ’’اگر کوئی امریکہ ایسا نہیں ہے جو پوپ امونس اور اس کی ’’فرڈونیڈ‘‘ کے مقابلے میں ٹھہر سکے تو میں کیوں نہ کھڑا ہو جاؤں اور آپ دیکھیں گے میں جو لکھوں گا وہ ’’الیڈ‘‘ سے کم نہیں ہوگا!‘‘ اس کے الفاظ کو بھول جائیے مگر اس کے جذبے کو دیکھئے۔ امریکی ذہین لوگوں کو آگے بڑھنے کے لئے سرپرستی نہیں چاہیے مگر چند ایسے لوگ جو اپنی آواز کو اونچا کریں، جو چھا جائیں۔ ایسا کرنا قوم کے لئے ضروری ہے۔ ہمیں انفرادی مصنفین کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں ایسے عظیم لکھاری پیدا ہوں ۔اور یہ کتنی شرم کی بات ہو گی کہ دوسری اقوام امریکیوں کے بہادروں پر قلم اٹھا ئیں ۔اور یہ سچ ہے کہ امریکی لکھاری امریکہ میں ہی بہت سے انگریز لکھاریوں سے کم مصروف ہیں۔ امریکہ میںبمشکل پانچ نقاد ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر سو رہے ہیں۔ جہاں تک سرپرستی کا تعلق ہے اب امریکی لکھاریوں کو یہ کام کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک کو شناخت دیں۔اور آج اگر کچھ لکھاری اس کے لئے عوام سے درخواست کریں کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو بھی حب الوطنی کے حوالے سے یہ درست ہے ۔ آج ہم دوسرے ملکوں کے لکھاریوں کو نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اپنے اصل کام اور شناخت میں ناکام ہو جانا زیادہ بہتر ہے۔ ناں کہ دوسروں کی نقل میں کامیاب ہو جانا۔وہ آدمی جو ناکام نہیں ہوتا عظیم آدمی نہیں بنتا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک آدمی جو مسلسل کامیاب ہو رہا ہے اپنی طاقت کو جانتا ہے۔ اس میں صرف یہ اضافہ کر لیا جائے کہ وہ اس معاملے میں بہت کم جانتا ہے۔ ایک بار ہمیں اس پر یقین کرنا چاہیے پھر ہمارے پاس ایسے لکھاری نہیں ہوں گے جو اپنی طاقت پر خوش ہوں گے۔ ہمیں امریکی گولڈ سمتھ اور امریکی ملٹن نہیں چاہئیں۔ ہمیں سچے امریکی لکھاری چاہئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تمام امریکی لکھاری اپنی تحریروں میں اسی قوم پرستی کے عنصر کو لئے ہوئے ہیں۔ اس طرح کوئی امریکی لکھاری انگریز اور فرانسیسی کی طرح نہیں ہو سکتا۔ اسے ایک آدمی کی طرح لکھنے دیجئے جب تک کہ وہ پریقین نہ ہو جائے۔ ایک امریکی کے طور پر لکھنے کو۔ جس طرح ہم سیاسی طور پر دوسری اقوام سے زیادہ ترقی کر رہے ہیں۔ ہمیں ادبی لحاظ سے بھی اسی طرح ترقی کرنی چاہیے۔ قومی ادب کے حوالے سے ہماری یہ برتر منزل ہم سے دور ہے۔ ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہمیشہ ہماری ہو گی۔‘‘
خصوصی نوٹ:پونے دو سو سال پہلے امریکہ کی ادبی سوسائٹی کو جو مسائل درپیش تھے،ان پر غور کیا جائے تو ہمیں اپنے آج کے اردو کے ادبی معاشرے کو در پیش مسائل کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکتی ہے۔اگرچہ ہرمن میلول کے بعض قومی قسم کے سجھاؤ جان کر ہنسی بھی آتی ہے تاہم شاید یہ سب اُس زمانے کی امریکی صورت حال کے تقاضے تھے۔بہر حال عمومی طور پر میلول کے خیالات ہمیں اُس سے بھی بہتر سوچ کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔اور ہرمن میلول کے یہ الفاظ تو ہمارے اردو معاشرے کے لئے آج بھی رہنمائی کر سکتے ہیں۔’’ آج ہم دوسرے ملکوں کے لکھاریوں کو نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اپنے اصل کام اور شناخت میں ناکام ہو جانا زیادہ بہتر ہے، ناں کہ دوسروں کی نقل میں کامیاب ہو جانا۔‘‘ ۔۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔