وہ جھوٹ بات پہ سیدھے سبھاؤ آیا تھا
سو دوستانہ فضا میں تناؤ آیا تھا
میں تلخ ہوتی تھی پہلے پہل بہت ، مجھ میں
بڑی ہی مشکلوں سے رکھ رکھاؤ آیا تھا
ہوائے زرد سہی ، سب سے دوستانہ ہے
میں کہہ کے آئی پرندے کو آؤ ، آیا تھا
نہ اٹھ سکی کبھی امید سر اٹھاتی ہوئی
دل و دماغ پر ایسا دباؤ آیا تھا
لبوں پہ جم گئی پپڑی ، قدم شکستہ تھے
ابھی تو دشت میں پہلا پڑاؤ آیا تھا
تمہیں ہی شوق تھا اپنی انا گنوانے کا
جسے پکارا تھا تم نے ، سناؤ ، آیا تھا ؟؟
یہ چوٹ اس لئے ہے جان سے عزیز مجھے
کسی عزیز کی جانب سے گھاؤ آیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔