رامو۔۔۔ سارے مور کہاں گئے ۔میں رقص طائوس عکس بند کرنا چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب! آپ کی لمبی گاڑی دیکھ کر تو صحرائے تھر کے غریب باشندے ڈر جاتے ہیں۔ مور بھلا کہاں ٹکیں گے۔
یار ۔ رامو! تمہیں پھرمذاق کی سوجھی ہے۔ نہیں شاہ صاحب سچی بات زبان پر آگئی ہے۔ آپ کی یہ لمبی سی گاڑی اور اس کی آواز کیا کم ہیبت ناک ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ دوزخ میں نقارہ بج رہا ہے۔ رامو! میری گاڑی ہیبت ناک کہاں ہے۔ بس معمولی سی گاڑی ہے۔ شاہ صاحب۔ آپ کی گاڑی میں نے بسنتی کو دکھلائی تھی۔ وہ ذرا دیر اندر بیٹھی تھی ۔ پتا ہے اس نے کیا کہا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی تپتے ہوئے صحرا میںیہ ٹھنڈی گاڑی جنت سے کم نہیں ہے۔ آپ مجھ سے پوچھیں تو آپ کی اس ٹھنڈی گاڑی نے میری صلاحیت کو زنگ لگانا شروع کر دیا ہے۔
وہ کیسے ؟؟ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ شاہ صاحب ! اب جان گرمی برداشت نہیں کر پا رہی ہے۔صرف چھ ماہ میں یہ حال ہو گیا ہے رامو!
ہاں جی۔ چھ ماہ میں۔ ایسا لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ جسم میں طاقت ختم ہو رہی ہے۔ مسلسل محنت سے ایسا ہو رہا ہوگا رامو!
مجھے دیکھو میں دنیا بھر میں کیمرہ لیے گھومتا رہتا ہوں۔ شاہ صاحب! آپ بڑے آدمی ہیں۔ آپ کو کیا پرواہ۔ اتنی بڑی جاگیر کے آپ اکیلے وارث ہیں ۔ روپے پیسے کی کمی بھی نہیں ہے۔ یہ غم تو ہمیں ہے۔ ہر روز اک نئی مصیبت ہمارا راستہ روکے کھڑی رہتی ہے۔ بھوک، پیاس، تنہائی، طوفان اور پھر سب سے بڑھ کر خشک سالی۔
رامو! تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ کیا بھول گئے ہو کہ ہم تین دن سے موروں کی تلاش میں ہیں۔ شاہ صاحب مجھے سب یاد ہے۔ جب ہر طرف تباہی ہو تو ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ برسوں کی خشک سالی نے موروں کو بھی در بدر کر دیا ہے۔ جیسے تھر کے باشندے در بدر پھر رہے ہیں ۔ مجھے رات کی ٹھنڈی ریت پر سونے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ آپ نہ جانے کیسے اس ٹھنڈی گاڑی میں سو لیتے ہیں۔
زندگی میں ایک رات ٹھنڈی ریت پر بھی سو کر دیکھو!
کیوں میری جان کے دشمن ہوئے ہو۔ سانپ اور دیگر بلائیں ہمارا استقبال کرنے کو بے تاب نہیں ہیں؟ نہیں شاہ صاحب! انسان سے سب بلائیں دور بھاگتی ہیں۔ ہمیں دیکھ کر یقین کرلو۔ پینتالیس سال سے تو میں اسی تھرمیں زندہ ہوں۔
مور کی بات کرورامو! مور کی۔۔ صحرا میں ناچتے ہوئے مور کی۔
شاہ صاحب ! گاڑ ی چھوڑ دو۔ پیدل چلو۔ ٹیلوں کوعبور کرو۔ اندر کی طرف اور آگے چلتے ہیں۔
شاید کہیں مراد بر آئے۔ بھوکے اور سوکھے تھر میںکوئی مور نظر آجائے۔
رامو!گاڑی کس کے حوالے کر کے جائیں گے؟
اللہ کے۔۔۔ اللہ سے بڑا کون ہے شاہ جی! اللہ بڑا بادشاہ ہے شاہ جی۔۔
رامو! پھر کیا کریں۔ شاہ صاحب۔واپس عمر کوٹ چلتے ہیں۔ شاید ایک دو ماہ میں بارش ہو جائے ۔ تھر سارا ہر ا ہو جائے۔ دھرتی نکھر جائے۔ بھوک مٹ جائے۔ تو شاید مور بھی آجائیں گے۔
فی الحال آپ مور کی بجائے مجھ پر غور کریں۔ رامو فقیر پر۔۔۔
کیا ہوا رامو تمہیں؟؟ شاہ جی ۔۔ مجھے بہت سے دکھ ہیں۔ میرا تھر اجڑ رہا ہے۔ یہاں زندگی ختم ہو رہی ہے۔ مصیبتیں سر اٹھا رہی ہیں ۔ اور ہم در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ پاپی پیٹ کیلئے نہ جانے کیا کیا جتن کر رہے ہیں۔ مگر ۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہماری قسمت۔۔ حالات بدلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
دن بدن زندگی عذاب ہوتی جارہی ہے۔ سخت بے رحم بپھرے ہوئے ریت کے طوفان کی طرح۔ رامو! میں تمہیں ساری زندگی اپنے سے جدا نہیں کرونگا۔ تم بہت اچھے اور سچے انسان ہو۔ شاہ جی بات ایک رامو کی نہیں۔۔۔ گھر کے سب لوگوں کی ہے۔۔ تھر ویران ہو رہا ہے۔ اجڑ رہاہے۔ تباہ ہو رہا ہے۔۔۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں ۔۔۔ ہمارا کچھ خیال کرو شاہ جی۔
زندہ انسانوں کا۔۔۔غریبوں کا ، بے بسوں کا۔۔۔۔
رامو! میں کیا کر سکتا ہوں ۔ شاہ جی آپ ساری دنیا گھومے ہیں۔۔۔ ہم سا پریشان کوئی افریقہ کے جنگلوں میں بھی نہیں ملا ہوگا۔
آپ ہمارے چہرے دنیا کو دکھائیں۔ انھیں بتلائیں کہ انسان دوزخ میں کس طرح رہتے ہیں۔ معصوم بچے کس طرح جلتی ریت پر جلتے ہیں۔ کنواری بچیاں کس طرح پانی کے لیے صحرا میں دور دور ماری ماری پھرتی ہیں اور بوڑھے کس آس پر زندگی گزار تے ہیں۔ ریت کے اڑتے گرم بگولوں میں کسمپرسی کس طرح رقص کرتی ہے؟؟؟اس قہری قصے کو۔۔ ساری دنیا میں پھیلادیں۔۔۔ تاکہ ہماری آواز سن کر شاید انسانیت جاگ جائے۔ اس خطے کی تقدیر بدل جائے۔ صحرا میں پھول اُگنے لگیں ۔۔۔ ہریالی مسکرانے لگے۔۔۔ تب میرا دل خوشی کے مارے رقص کرے گا۔۔۔ اور آپ رقص طائوس کو بھول جائیں گے۔ شاہ جی! میرا چہرہ دیکھو ۔۔۔ اس پر تھر کی پوری تاریخ اپنی تمام تر سختیوں کے ساتھ موجود ہے۔ میرا چہرہ۔۔۔ دھوپ کی شدت سے سیاہ ہو گیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہاں بھی چاند کے ٹکڑے پیدا ہوں۔
شاہ جی۔۔۔۔ تمہا را کیمرہ کمال دکھا سکتا ہے۔ میرے کالے چہرے کو سفید کر سکتا ہے۔ آپ صرف اپنا اندازِ نظر بدلیں۔۔۔ پھر دیکھیں کہ آپ کے فن پر نکھار کیسے آتا ہے۔ تھر کی زندگی کو اپنا فن بنالیں۔۔ تھریوں کے چہرے آئینے ہیں۔ صرف توجہ چاہتے ہیں۔ ۔۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ آج کی رات میں ٹھنڈی ریت پر سو جائوں۔ آپ کیمرہ لے کر تیار رہیں۔ جب میں خواب دیکھ رہا ہوں گا تو چپکے سے کوئی سانس پینے والا سانپ آکر مجھے خاموش لاش میں تبدیل کر جائیگا۔ اور اگر آپ کا کیمرہ ان لمحات کو تصویروں میں ڈھال لے تو میری خواہش پوری ہو جائیگی۔ روزروز مرنے کی بجائے ایک بار مرنا چاہتا ہوں۔ شاہ جی !!! آپ کے ساتھ صحرا میں خاک چھاننے میں اب کوئی مزہ نہیں ہے۔ میرا دل اُکتا چکا ہے ۔ ہم مہینوں سے اس صحرا میں خوامخواہ گھوم رہے ہیں۔ رامو! خوامخواہ کہاں گھوم رہے ہیں۔ تھر کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔۔کیمرہ کی آنکھ میری آنکھ نہیں ہے۔ شاہ جی!
میر ی آنکھ برسوں سے اس دوزخ کو جنت بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے ۔ ہمارے تنکوں اور جھاڑ جھنکار سے بنے ہوئے گھر اس میں رہنے والے کمزور اور غریب تھری۔ اب بھی اپنی آنکھوں میں خواب لیے زندہ ہیں۔ آپ ہمارا ساتھ دیں۔۔۔۔ ہمارا دکھ محسوس کریں۔۔۔ہماری روح زخمی اور جسم فریادی ہے۔۔۔
رامو! تمہاری باتیں سن کر مجھے لندن، پیرس، فرانکفرٹ، ماسکو، بیجنگ کے وہ دانش ور یاد آتے ہیں جو انسانیت کی فلاح کے لئے دن رات سوچتے ہیں۔ اپنے فکر انگیز مقالے پیش کرتے ہیں۔ مگر تم تو کسی اسکول کالج کے پڑھے ہوئے نہیں ہو اتنے بڑے صحرا میں تمہیں یہ تعلیم کس نے دی ہے؟ میر ی مٹی نے۔۔۔ اس اڑتی ہوئی ریت نے۔۔ جو خود بھی ہماری طرح در بدر بھٹکتی ہے۔ کبھی آہستہ ہوا کے سنگ چلتی ہے تو کبھی منہ زور طوفان کے ہم رکاب ہو جاتی ہے۔ اس مٹی کا سفرہمیں دن رات یہی تعلیم دیتا ہے کہ۔۔۔ تھر سے محبت کرو۔۔۔ اس کی بہتری کیلئے سوچو۔۔۔ اپنی زندگی کو تلاش کرو۔۔۔ شاہ جی! ہر یالی ہماری زندگی ہے۔ ساون کے بادل کھل کر برسیں تو ہمارے لبوں پرزندگی مسکراتی ہے۔ نہ برسیں تو ہمارے دل کی دھڑکن کرب کی شدت سے رکتی محسوس ہوتی ہے۔ شاہ جی! اپنے کیمرہ کا رخ ہماری طرف کرو۔۔ ہماری عذاب زندگی کے ہر لمحے کو تصویر کردو۔ ہمارے پیلے زرد سوکھے اور مرجھائے ہوئے چہروں میں زندگی ایسے تلاش کرو۔ جیسے مور کو تلاش کر رہے ہو۔ ہمار ا شعلوں پر رقص عکس بند کرلو۔ ہمارے جذبات کورنگوں میں جذب کرلو۔یہ کہتا ہوا وہ میری گاڑی سے ذرا دور جاکرتپتی ریت پر پہلے ساکت کھڑا رہا اور پھر آہستہ سے اس کا جسم رقص کرنے لگا۔ وہ بے خودی کے عالم میں رقص کر رہا تھا۔تپتی ریت پر اس کے پائوں گردش کر رہے تھے ۔ اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں تھے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے عظیم صحرا میں رقص طائوس دیکھ رہا ہوں۔ مور جب رقص کرتے ہوئے اپنے پائوں دیکھتا ہے تو۔۔۔۔ میں نے کیمرہ سنبھالا۔۔ اور دھڑا دھڑرامو کی تصویریں بنانے لگا۔۔۔ روتی ہوئی آنکھیں اور تپتے پائوں مجھے بہت ہی خوب صورت لگ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔