پھرکیا،رحمن بابو؟ہم نے کسی ذی جان کی تلاش میں سارا سیارہ چھان مارا اور جب بسیار کوشش پر بھی کوئی نظر نہ آیا تو ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ مریخ میں کوئی بھی جاندار نہیں رہ رہا۔۔۔۔ہاں یہ درست ہے کہ مریخ میں سبھی ایسے لوازم موجود ہیں جن کے باعث وہاں زندگی عین ممکن ہے،مگر کوئی ہوتا تو کہیں نہ کہیں تو دِکھ جاتا۔
اور پھر رحمن بابو،جب ہم مریخ سے اپنی زمین کی طرف واپسی کی تیاریوں میں جٹے ہوئے تھے تو یکبارگی ہمیں اجنبی قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ہم ٹھٹھک کر رہ گئے بابو۔کون؟۔۔۔ہم حواس مجتمع کرکے اِدھر اُدھرقہقہے لگانے والے کو دیکھنے لگے۔
ہمیں دیکھنے کی کوشش مت کرو۔۔۔ہمیں سنائی دیا۔۔۔۔ہم بے وجود ہیں۔
بے وجود؟!۔۔۔کیسے؟
دیکھ ہی رہے ہو کیسے۔۔۔ہم اسی لئے غیر فانی ہیں کہ ہمارے کوئی وجودنہیں۔
اگرتمہارے کوئی منہ نہیں تو بول کیسے رہے ہو؟
میں بول نہیں رہا۔۔تم مجھے سُن رہے ہو۔
رحمن بابو،ہم تادیرسکتے میں رہے،مگر ذرا سوچو تواُس مریخی نے جھوٹ کیاکہا؟ہمارے کرۂ ارض پر بھی تو ابدی زندگی اِسی طور ممکن ہے کہ آدمی اپنا وجود کھو کر ہمیں باطن میں محسوس ہوتا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔