بطور قلمی نام
عبد اللہ حسین نے جب اپنے لیے کوئی قلمی نام اختیار کرنا چاہا تو انہیں خود اپنا نام محمد خان پسند نہیں آیا صرف اس لیے کے کرنل محمد خان وہاں پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انھیں سیمنٹ فیکٹری کا ہم منصب ’’طاہرعبداللہ حسین‘‘ کا نام اچھا لگا اور انہوں نے ’’عبد اللہ حسین‘‘ بطورِ قلمی نام اختیار کر لیا۔
ابتدائی تخلیقات:
عبد اللہ حسین نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات کہانی لکھنے سے کی تھی اور باقاعدہ اشاعتی سلسلہ 1962ء میں رسالہ سویرا لاہور میں شائع ہونے والی کہانی ندی سے ہوتا ہے۔ ندی کی اشاعت کے ایک برس بعد اسی رسالے میں ان کی تین کہانیاں سمندر، جلاوطن، پھول کا بدن شائع ہوئیں۔ 1963ء میں عبد اللہ حسین کی ایک اور کہانی دھوپ چھپی۔ پھر انہوں نے ایک طویل خاموشی اختیار کر لی۔ 27 فروری کی ایک گفتگو (مطبوعہ سویرا، لاہور، شمارہ 35) میں عبد اللہ حسین نے کہانی لکھنے کے اپنے شروعاتی دور کی دلچسپی کے تعلق سے کہا تھا:
’’یہ جو لکھنے کا معاملہ ہے، یہ میں نے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ میں نے اپنی پہلی کہانی اس وقت لکھی تھی جب میں میٹرک میں پڑھتا تھا۔ وہ کچھ ایسی تھی کہ، ایک ہمارے بھائی ہیں، ایک ہماری بھابی ہیں اور ایک بھابی کی بہن ہیں۔ وہ ہمارے گھر آئیں اور میں ان سے ملا۔ Boy Meets Girl قسم کی رومانی چیز تھی۔ اس کا نام بھی مجھے یاد ہے، "سورج کی کرنیں" یہ کہانی بہت عرصے تک میرے پاس رہی، پھر پتہ نہیں کہاں گئی۔ اس کے بعد میں نے ایک اور کہانی لکھی اس میں بھائی کا ذکر تھا۔ حالانکہ میرا کوئی بھائی نہیں لیکن پتہ نہیں کیا چکر تھا، میرے ذہن میں۔ خیر، کہانی میں یہ تھا کہ بھائی کی جہاں شادی ہوئی ہے، میں اس گھر میں جاتا ہوں۔ کہانی صیغہ واحد متکلم میں تھی اور وہاں دو بہنیں ہیں۔ ایک بڑی ہے مجھ سے اور ایک چھوٹی ہے اور دونوں مجھے ایک طرح سے Seduce کرتی ہیں یا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بس ایسی ہی کچھ کہانی تھی۔ مجھے اس کا نام بھی یاد نہیں۔ یہ کہانی چھپی بھی تھی۔ میں لاہور میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا۔ لاہور سے ایک زمانے میں بڑا واہیات سا رسالہ نکلا کرتا تھا جس کا نام حسن پرست تھا، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی خراب چیز میں نے اس زمانے میں لکھی ہے تو اب میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ وہ میں نے نہیں لکھی۔
وہ میری پہلی کہانی تھی جو چھپی۔ اس کے چند سال بعد میں تین کہانیاں اور لکھیں۔ اس وقت میں بی ایس سی میں پڑھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ ان کہانیوں میں کیا تھا، بہرحال وہ تین تھیں۔ ان دنوں نقوش نیا نیا نکلا تھا۔ ہم نے پڑھا، بڑا پسند آیا۔ وہ تینوں کہانیاں ان کو بھیج دیں۔ نقوش کے مدیر نے کہانیاں واپس کردیں اور کوئی اس قسم کی بات لکھی کہ آپ کو لکھنے کی سمجھ تو ہے لیکن سلیقہ نہیں۔ یا لکھنے کا سلیقہ تو ہے لیکن سمجھ نہیں اور ذرا مشق کریں۔ بہرحال ہم بڑے بددل ہوئے کہ اپنی طرف سے ہم نے بڑی شاہکار کہانیاں لکھیں اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر تین چارسال اسی طرح گزر گئے۔‘‘
اداس نسلیں کی تخلیق:
1956ء میں والد کے انتقال سے عبد اللہ حسین کو شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ نروس بریک ڈاو?ن کا شکار ہوئے۔ انہوں نے کہا تھا:
’’1956ء میں والد فوت ہوئے، پھر میں بیمار ہو گیا، اسپتال میں رہا۔ جب میں ٹھیک ہو گیا تو میں نے مئی میں یہ ناول (اداس نسلیں) لکھنا شروع کیا۔‘‘
‘‘اداس نسلیں‘‘ لکھنے کے لیے عبد اللہ حسین نے مواد کے حصول کا کام جون 1956ء سے ہی شروع کر دیاتھا۔ وہ پانچ سال تک اس پر محنت کرتے رہے اور مئی 1961ء میں یہ پایہ? تکمیل کو پہنچا لیکن اس کی اشاعت 1963ء میں عمل میں آئی۔ اس ناول میں تین نسلوں کے کوائف بیان کیے گئے ہیں۔ اس ناول کے پلاٹ اور مرکزی خیال کے بارے میں ان کا کہنا تھا:
’’اس کا جو پلاٹ ہے، مرکزی پلاٹ، وہ شروع سے آخر تک ایک ہی دفعہ ذہن میں آیا تھا۔ جب لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہ میرے لیے اتنی اہم نہ تھی، پھر میں نے باقاعدہ اس بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ کتابیں پڑھیں، لوگوں سے ملا، شروع کے کئی باب لکھنے کے بعد کی بات ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ پہلی جنگ عظیم جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں تک لکھنے کے بعد کی بات ہے۔ میں نے باقاعدہ تاریخ پڑھی، اپنے عہد کی تاریخ، جنگ کے سلسلے میں بڑے دور دور کے گاو?ں میں جا کر پرانے سپاہیوں سے ملا۔‘‘
عبد اللہ حسین کے اس ناول کو لکھنے کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ ایک صوبیدار خداداد خان سے ملنے لیے، جنہیں پہلی جنگ عظیم میں وکٹوریہ کراس ملا تھا، پندرہ میل پیدل چلنا پڑا۔ عبد اللہ حسین چاہتے تھے کہ ناول میں حقیقی واقعات بھی شامل ہوں۔ وہ اس زمانے کے حقائق کو اس انداز سے فکشنائز کرنا چاہتے تھے کہ تاریخی وقوعے سامنے آجائیں۔ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ ان کا ذوق و شوق بن گیا اور انہوں نے کافی کتابیں پڑھیں۔ مہاتما گاندھی اور جوہر لال نہرو کو بھی پڑھا۔ بعض انگریزی کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے اس کا اعتراف کیا کہ "اداس نسلیں" کو بہت شعوری طور پر تاریخی ناول سمجھ کر نہیں لکھا اور ان کا خیال ہے کہ نہ ہی یہ تاریخی ناول ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بنیادی طور پر اس ناول کو ایک محبت کی کہانی Love Story سمجھ کر لکھا تھا اور آخر وقت تک ان کے ذہن میں یہی تصور تھا۔ یونیسکو نے اداس نسلیں کو انگریزی ترجمے کے لیے منتخب کیا۔ برطانیہ میں اپنے دورانِ قیام عبد اللہ حسین نے اداس نسلیں کا انگریزی ترجمہ The Weary Generations کے نام سے کیا تھا۔ اس کی اشاعت سے انگریزی حلقوں میں بھی اس کی خوب پزیرائی ہوئی۔ ہندوستان میں ہارپر کولنز اور پاکستان میں سنگ میل پبلی کیشنز نے اسے چھاپا۔ عبد اللہ حسین کی اصل پہچان ان کے پہلے ناول اداس نسلیں سے ہے جس کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ ناول عالمی ادب کے معیار پر پورا اترتا ہے۔
(عنبر شمیم کے سوشل میڈیافورم’’ ا نسان گروپ‘‘ سے ماخوذ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔