کہا کہ دل اداس ہے،شراب دے گیا مجھے
عذاب تھی یہ زندگی،عذاب دے گیا مجھے
میں الفتوں میں درد کا تراشتا رہا وجود
وہ قربتوں میں ہجر کا حساب دے گیا مجھے
سوال یہ نہیں کہ بے وفا نکل گیا کوئی
میں لاعلاج کیا ہوا جواب دے گیا مجھے
ابھی تو زخم تھے ہرے،،بھرے نہیں تھے ٹھیک سے
وہ شاعری کی پھر کوئی کتاب دے گیا مجھے
جو نیکیاں تھیں ہاتھ میں وہ لکھ گیا مِری طرف
فقیر اپنی زیست کے ثواب دے گیا مجھے
میں ڈائری میں آج پھر لکھوں گا داستانِ وصل
وہ راستے میں آج پھر گلاب دے گیا مجھے
میں بد نصیب جیت کر بھی ہار ہی گیا سہیلؔ
وہ دل تو دے گیا مگر خراب دے گیا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔