پیڑوں نے مسموم ہوا خود کھائی ہے
زندگی بخش ہوا ہم کو لوٹائی ہے
اپنے پھل کو میٹھا کرنے کی خاطر
جڑ نے کیا کیا دُکھ تکلیف اُٹھائی ہے
خود مٹی میں دب کر پھل کے لیے غذا
تنے کے رستے شاخوں تک پہنچائی ہے
چیزوں کا مُتضاد عمل کیا ہوتا؟
اِسی عمل کو جاننا تو دانائی ہے
محفل نے ہی تنہائی کو توڑا تھا
محفل نے ہی پیدا کی تنہائی ہے
سورج کی کرنوں کی ضو افشانی سے
چاند کے چہرے نے تابانی پائی ہے
جب کوئی عالیشان عمارت دیکھتا ہے
بام و در کی کرتا مدح سرائی ہے
کون بھلا اس اینٹ کے بارے سوچتا ہے
بنیادوں کی تہہ میں جو کام آئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔