بجھتے ہوئے چراغ کی سوغات ہی تو ہیں
ہم آسمانِ درد کی اک رات ہی تو ہیں
تفسیر لکھتے رہتے ہیں اپنے وجود کی
ہم کیا ہیں صرف اپنے خیالات ہی تو ہیں
کیوں ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کس سمت جائیں گے؟
خود اپنے آپ سے یہ سوالات ہی تو ہیں
سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے ؟ کرے کون فیصلہ
لوگوں کے اپنے اپنے مفادات ہی تو ہیں
میں اِن سے خود لڑوں گا برائے مصالحت
اچھے ہیں یا برے مرے حالات ہی تو ہیں
دروازہ دوستی کا کروں کیوں میں اُس پہ بند
تھوڑی سی مجھ کو اُس سے شکایات ہی تو ہیں
جو اُس نے کہہ دیا وہی کہنے لگے ہیں لوگ
یہ اُس کی گفتگو کے کمالات ہی تو ہیں
اک رات اک چراغ اک آہٹ اک انتظار
یہ سب اداسیوں کی مراعات ہی تو ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔