’’غلطی کوئی بھی کرتا ہے ،انسان معاف کردیتا ہے،معاف توبھگوان بھی کردیتا ہے، لیکن غلطی کبھی معاف نہیں کرتی،بڑے بابو۔۔۔۔!‘‘ راکیش نے آفس سے باہر نکلتے ہوئے بڑے بابو کوسمجھایا۔
’’پر میں کیاغلطی کررہاہوں۔۔۔؟‘‘بڑے بابونے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔
’’شادی نہ کرکے بہت بڑی غلطی کر رہے ہو بڑے بابو۔‘‘راکیش کہہ کراپنے راستے مُڑ گیااوربڑے بابوسوچتے ہوئے اپنے گھرآ گئے۔
بڑے بابو،پہاڑ پرجمی برف کی طرح ٹھنڈے تھے، بالکل یخ اور میٹھے بھی۔کبھی کبھی لوگوں کے طنزسورج کی گرم شعاعوں کی طرح چبھتے بھی اُن کے اوروہ حالات کے تحت تھوڑا بہت پگھل بھی جاتے ، مگر رہتے میٹھے کے میٹھے ہی۔ اونچائی سے گرتے،پتھروں سے ٹکراتے، دھول سے گزرتے۔پر، رہتے پھربھی میٹھے اورٹھنڈے بھی۔ لوگوں کی باتیں گرم ہوائوں کی طرح اُن کے وجود سے ٹکرا کرگزر جاتیں، اُن کو لگتا بھی کہ کوئی دل ودماغ کوجھنجوڑگیا ، اندرہی اندر۔ لیکن وہ پھربھی جمے رہتے، اپنی جگہ۔ اُن کے دِل ودماغ میں کچھ کدورت آبھی جاتی۔ پر،پل دوپل کے لیے۔
ماں باپ کے اکلوتے تھے بڑے بابو۔ پہاڑوں کی آگ سینے میں دبائے چپ چاپ زندگی گزاررہے تھے وہ ۔ اُن کے گھرمیں ایک کتا، ایک توتا، اوردوچار مرغیاں مرغے تھے۔
صبح ہوئی، فراغت کے بعدکھانابنایا، خودکھایا، جانوروں کوکھلایا، تالالگایااورنکل گئے، آفس کے لیے۔ آفس سے چھوٹے، ہوٹل سے کھانالیا، گھرآئے، کھایا کھلایا، اورسورہے۔ بس ۔۔۔!یہی معمول تھا، اُن کی زندگی کا۔ اتوار کی تعطیل میں دوکام اہم تھے اُن کے۔ بازار سے سامان لانااور مکان کی صفائی۔ دیگر تعطیلات میں دوستوں کے یہاں بھی چلے جاتے، مگر کبھی کبھار۔ پر،اپنے یہاں آنے کاموقع کم ہی دیتے تھے دوسروں کو۔ایک دیوالی، اُن کے یہاں جانے کااتفاق ہوا میرا۔اُ ن کے دیے وقت کے مطابق پہنچ کرجب گھنٹی بجائی، تواُن کاحلیہ دیکھ کربے ساختہ ہنسی آئی۔ اُن کے ایک ہاتھ میں کف گیر،اور دوسرا ہاتھ بیسن میں لتھڑا ہوا،ماتھے پر پسینے کی بوندوں کے ساتھ،جہاں تہاں ہلدی کے داغ ، تہ بند اوربنیائن پر بھی بیسن نے دستخط کررکھے تھے اچھی طرح، جہاں تہاں۔
’’بڑے بابو۔۔۔! یہ کیا حلیہ بنارکھاہے آپ نے۔۔۔؟‘‘میں نے ہنستے ہوئے دریافت کیا۔
’’اما کیابتائوں یار۔۔۔! پکوڑے بنارہاتھا، مرغا پاس کھڑا تھا، بلّی آدھمکی کہیں سے اورمرغا ہلدی مرچیں اُڑاتا ہوانکل گیا، آنکھوں میں مرچیں بھر گئیں، بہت دھویا،دیکھو۔۔۔!اب بھی سُرخ ہیں نا۔۔۔؟‘‘ بڑے بابو نے آنسوئوں سے لبریز آنکھیں پھیلادیں۔۔۔’’ہاں ہیں۔‘‘میں کہتا ہوا اندر چلاگیا،اُن کے ساتھ۔کھانا بنوایا،کھایا پیااورچلاآیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ مرغ مسلم بنایاکیسے جاتاہے،راکیش بابو۔۔۔؟‘‘ایک روزآفس میں بڑے بابو نے راکیش کوفائل دیتے ہوئے دریافت کیا۔
’’ایک ساتھ دوغلطیاں کررہے ہو،بڑے بابو۔۔۔!‘‘راکیش نے اُن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’غلطیاں۔۔۔! کون سی غلطیاں۔۔۔؟‘‘ بڑے بابوچونکے۔
’’ایک توفرید کی فائل مجھ کودے رہے ہو، اوردوسرے مرغ مسلم بنانے کاطریقہ کسی خانساماں کے بجاے ،مجھ سے پوچھ رہے ہو۔‘‘ راکیش نے جواب دیااور بڑے بابوشرمندہ ہوکر فرید کی جانب مڑگئے۔
’’بڑے بابو ۔۔۔! میری مانوتوایک کام کرو۔۔۔!‘‘فرید نے فائل لیتے ہوئے بڑے بابو سے کہا۔
’’وہ کیا۔۔۔۔؟‘‘بڑے بابو نے پوچھا۔
’’شادی کرلو۔۔۔!‘‘فرید نے مشورہ دیا۔
’’اجی کیا ضرورت ہے شادی کی۔۔۔؟‘‘ بڑے بابو بے ساختہ بھڑک گئے۔
’’ضرورت تو ہے ۔ بیوی ہوتی تومرغ مسلم کے بارے میں نہ پوچھتے۔‘‘
’’وہ توگوگل پر سرچ کر لوں گا۔‘‘
’’گوگل پر سرچ کر لینے سے مرغ مسلم نہیں بن جاتا، بنانا پڑتا ہے۔‘‘
’’سناہے کھانابنانے کی مشین آگئی ہے مارکٹ میں ۔ اُس میں جس وقت کاجوبھی کھانا فیڈ کردوگے۔ وقت پرتیار ملے گا، گرماگرم ۔‘‘ بڑے بابو، بڑے اطمینان سے فائل دے کراپنی سیٹ پربیٹھ گئے۔
’’کھانابنانے کے علاوہ اوربھی بہت سے کام ہیں گھرمیں ،بڑے بابو۔۔۔!‘‘ فرید نے سمجھایا۔
’’ہاں ہیں، لیکن اب سارے کام مشینوں سے ہوجاتے ہیں، فرید۔۔۔!‘‘ بڑے بابوٹال گئے۔
’’کیا کیاکام کروائوگے مشینوں سے ۔۔؟‘‘فرید نے انگلیاں نچاتے ہوے اُن کاپیچھاکیا۔
’’پہلاکام وقت پرسوکراُٹھنا، جِس وقت کابھی الارم لگادو، اُسی وقت ٹنن ٹنن، ایک منٹ اِدھر، اورنہ اُدھر۔ اسی طرح اور بھی مشینیں ہیں۔ جیسے پانی گرم کرنے کی مشین،مسالا پیسنے کی مشین، کپڑے دھونے کی مشین، لگتا ہے ٹی،وی،پراسکائی شاپ نہیں دیکھتے آپ ۔۔۔۔؟‘‘ بڑے بابو نے جیسے بازی مارلی۔
’’دیکھتا ہوں جناب۔۔۔!لیکن یہ توبتائو۔۔۔۔!کیا بچے بنانے کی بھی مشین بنائی ہے اسکائی شاپ نے۔۔۔۔؟‘‘ فرید نے نیا پتّاپھینکا۔
’’نہیں بنائی ہے، توبنالی جائے گی ،ایک نہ ایک دن۔ ایک سے ایک سائنس داں پڑے ہیں دنیامیں۔‘‘ بڑے بابو نے نہلے پر دہلا مارا۔
’’توانتظار کروبڑے بابو۔۔۔۔!‘‘
’’وہ توکروں گاہی۔۔۔!‘‘ بڑے بابو نے فائنل کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اوبے فرید۔۔۔!‘‘ ایک روزبڑے بابو نے دفتر میں آتے ہی بہ آوازِ بلندفرید کومخاطب کیا۔
’’کہیے۔۔۔؟‘‘
’’ اب ایجاد ہوگئی، وہ مشین ۔‘‘
’’مشین ۔۔! کون سی مشین۔۔۔۔؟‘‘
’’وہی نا۔۔۔!بچے بنانے والی، اب ٹیسٹ ٹیوب میں تیار ہونے لگے ہیں بچّے۔ پڑھا نہیں اخبار میں ۔۔۔۔؟‘‘
’’پڑھا توہے ۔ پریہ توبتائو۔۔۔۔! لاکب رہے ہووہ مشین۔۔۔؟‘‘فرید نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’ابے فرید۔۔۔!توجانتانہیں یار۔۔!آج کے دورمیں اتنی مشینیں خریدنا، ہے کب میرے بس کا۔۔۔۔؟ میں تو ایک کلرک ٹھہرا،وہ بھی بوڑھا، پچپن کا۔‘‘
’’پھر کروگے کیا۔۔۔۔؟‘‘
’’سوچتاہوں، جب ساری مشینیں ایک ساتھ ایک ہی مشین میں آ جائیں گی، یعنی کہ آل،اِن ،ون، تب ہی خرید سکوںگا میں تو۔‘‘
’’نہ مریں گے دادا، اورنہ بٹیں گے بیل۔‘‘
’’بٹیں گے،بیل ، ضروربٹیں گے ۔ دیکھ لیناتم۔۔۔!داداکوتومرناہی پڑے گا، ایک نہ ایک دِن،سمجھے۔۔۔؟‘‘بڑے بابو کی آنکھوں میں امید کی چمک کوند گئی۔
’’لگتا ہے داداسے پہلے تم ہی چلے جائوگے آل اِن ون کے چکّرمیں۔‘‘
’’لگتاتویہی ہے فرید۔۔۔۔!‘‘ بڑے بابوافسردہ ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مرگئے،دادا۔‘‘ ایک روزبڑے بابودفترآکراُچھل پڑے ۔ لوگ سمجھے کہ واقعی چلے گئے اُن کے دادا۔
’’دادامرگئے۔۔۔۔؟‘‘ راکیش نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔!مرگئے،دادا، اب بٹیں گے،بیل۔یعنی کہ آل،اِن ،ون،آگئی مارکٹ میں۔‘‘بڑے بابو خوشی میں جھوم کر بولے۔
’’تولے آئونا۔۔۔۔!‘‘
’’جاتورہاہوںاتوار کودلّی۔ تم سب بھی چلو نامرے ساتھ ۔۔۔!‘‘بڑے بابو نے التجا کی۔
سوموارکوبڑے بابوآفس آئے، توحلیہ ہی بدلاہواتھااُن کا۔ بال کالے، کریم کلر کاسوٹ، کالا بوٹ، بوٹ کی ہل ہائی، سوٹ پرسرخ ٹائی، چھوٹی مہری کی پینٹ، اُس پر سیکسوسینٹ، نیارومال، مستانی چال۔ آتے ہی نمستے مارا، کسی کی سمجھ میں نہ آیاماجراسارا۔
’’کیاآل ،اِن، ون،لے آئے بڑے بابو۔۔۔!‘‘میں نے پہیلی بوجھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’رات ہی تولایا ہوں، تم دیکھ نہیں رہے ہو مجھ کو۔‘‘
’’وہ کیا۔۔۔؟‘‘
’’یہ پریس لگا خوش بودار ٹنٹناتا سوٹ،کالاچمچماتابوٹ،لال رومال ،کالے بال، ٹناٹن حال، مستانی چال، اُسی مشین کی تودین ہے نا۔۔ ! ‘‘ بڑے بابو آنکھیں مٹکاکر پورے گھوم گئے۔
’’ہاں۔۔۔؟‘‘ راکیش نے آنکھیں پھیلادیں۔
’’ہاں۔۔!فٹافٹ کرتی ہے کام، میری آل ،اِن، ون۔‘‘
’’تو دکھائو گے کب اپنی آل اِن،ون۔۔۔؟‘‘ راکیش نے پوچھا۔
’’آج ہی آجائوشام کو۔۔۔!‘‘ بڑے بابونے کہا، ہم سب نے حامی بھرلی اوربڑے بابو ہاف ٹائم کی چھٹی لے کر سرک گئے ،آفس سے۔ ہم لوگوںنے بھی اُن کے دیے وقت کے مطابق پہنچ کراُن کے مکان کی گھنٹی بجادی، اوربڑے بابو نے ہم سب کواندر بلالیا۔
’’کہاں ہے آپ کی آل ،اِن ،ون۔۔۔۔؟‘‘میں نے بڑے بابوسے دریافت کیا۔
’’وہ دیکھو۔۔۔! آپ لوگوں کے لیے کھاناتیار کررہی ہے، میری آل،اِ ن ،ون،یعنی کہ لال اِن وَن۔‘‘ بڑے بابونے خوشی میں جھوم کربڑے رُعب سے اُس جانب اشارہ کیا،جہاں سرخ کپڑوں میں،پسینے سے لت پت، کمر میں دوپٹّا لپیٹے، ایک نازنین کھانا بنانے میں جی جان سے مصروف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔