اپنی سوچ اور احساسات کو منظوم انداز میں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا شاعری کہلاتا ہے۔شاعر کسی بھی معاشرہ کا ایک انتہائی حساس طبقہ ہوتے ہیں۔وہ زمانے اور حالات کو ایک الگ پیرائے میں سوچتے اور بیان کرتے ہیں۔وہ کسی نہ کسی محرومی یا کسی خاص معاشرتی ناہمواری سے دِلبرداشتہ ہو سکتے ہیں اور اپنے فن کو منظم تحریر کا رُوپ دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاعری صِرف رُومانوی حس کا ہی اظہار ہے،لیکن میں سمجھتا ہُوں کہ شاعری کو صِرف رُومانوی اُسلوب سے جوڑنا نا انصافی ہے۔آج کے دَور میں بے شُمار ایسے شعرا موجُود ہیں،جو عصرِ حاضر کی معاشرتی ناانصافیوں ، محرومیوں اور رُسوم و رواج کو اپنا سُخن بنائے ہُوئے ہیں۔ ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ دُنیائے ادب کے اُفق پر جگمگاتا ایک ایسا ستارہ ہے کہ جس کی ضیاء سے زمانہ جگمگا رہا ہے۔ایک ایسا گُلاب ہے،جس کی بے خُود کر دینے والی مہک سے گُلستان ِ ادب کِھل اُٹھا ہے۔ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ نئی اُمنگوں ،اُمیدوں اور کچھ کر گزرنے کے صادق جذبہ اپنے فن میں سجائے ادبی راہوں پر رواں دواں ہیں :
میں رو رہا ہُوں جسے یاد کر کے آج تلک
وہ ایک وعدہ جسے وہ بھی بُھول پایا نہیں
اِک ایسا گیت ہُوں لکھا ہُوا کتابوں میں
کہ آج تک جسے قائلؔ کسی نے گایا نہیں
ڈاکٹر عمرقیازقائلؔ کا خُوب صُورت مجموعہء کلام :’’محبت عام کرنا چاہتا ہُوں‘‘میں نے پڑھا ہے۔اِس کا ایک ایک لفظ حقیقتوں کا آئینہ دار ہے ۔انتہائی خُوب صُورت ٹائٹل، معیاری اشاعت اور اعلیٰ شاعری کی حامل یہ کتاب دِلوں کو چُھو لینے والی شاعری سے لبریز ہے۔تین سو بیس(320)صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک حمد،ایک نعت اور ایک سو سینتیس((137غزلیات سمیت ورلڈ ویو پبلشرز لاہور کی وساطت سے منظرِعام پہ آئی ہے۔انتساب ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ نے ’’محبت اور محبت کرنے والوں ــکے نام ‘‘کیا ہے۔تاثرات اور اِس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ سمیت مختلف شاعروں ،ادیبوں ،نقادوں اور افسانہ نگاروں نے مضامین قلم بند کیے ہیں۔ہر غزل پر اُس کی بحر کا نام اور اُس کے ارکان بھی تحریر ہے ۔ڈاکٹرعمرقیازقائلـؔ نے ہر لفظ میں نہ جانے کون سا جادو بھر دیا ہے کہ ہر پڑھنے والا اُس کے سحر میں جکڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ڈاکٹرعمرقیازقائلـؔ کی غزل کا ہر شعر قابلِ غور،جاذبِ نظر اور حالاتِ حاضرہ کی تصویر کشی میں ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے۔معاشرے میں بکھرے ہُوئے پیچیدہ مسائل کو جس خُوش اُسلوبی سے وہ شعروں میں ڈھالتے ہیں یہ اُنہی کا مرہونِ منت ہے:
میں نفرت کو خیالِ خام کرنا چاہتا ہُوں
محبت کو جہاں میں عام کرنا چاہتا ہُوں
کوئی مانے نہ مانے یہ تہیہ کر لیا ہے
میں اپنے آپ کو نیلام کرنا چاہتا ہُوں
اُردُو شاعری میں ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ ایک انفرادیت کا حامل شاعر ہے۔اُن کی شاعری میںمقصدیت ،ذوقِ تسکین اور جذبہ بھی ہے۔ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ کی بحیثیت شاعر اور اُن کی شاعری کے فکروفن کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ڈاکٹرعمرقیازقائل ؔ کی شاعری اِس بات کی غماز ہے کہ اُنہوں نے جلد بازی میں شعر نہیں کہے،بلکہ پُورے دھیان اور انہماک سے شاعری کی ہے۔اُن کی شاعری میں بے پناہ شیرینی ،حسِ لطافت اور ہجروفراق کا تذکرہ سلاست ہے۔بِلا شُبہ ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ غزل کہنے پر بھی مکمل گرفت رکھتے ہیں۔وہ ایک نفیس، مخلص انسان اور دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی تخلیق کار بھی ہے ۔اُن کی شاعری کا مرکز و محور محبت کا وہ دائمی جذبہ ہے ، جو اِس کائنات کے نظام کو باہم مربوط کیے ہُوئے ہیں۔وہ انسانی زندگی کی گُوناگُوں کیفیات اور احساسات کو اِس عمدگی سے شعری پیکر عطا کرتا ہے کہ قاری اُس کی ہُنرمندی اور طرزِ بیان کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔وہ اپنے خُوب صُورت خیالات کو شعر کے قالب میں ڈھال کر سلیس انداز میں پیش کرتے ہیں۔کتاب سے چند اشعار مُلاحظہ فرمائیں:
خُود دار اِس قدر تھا کہ ڈُوبی ہزار ناو
ساحل پہ دوستوں کو پُکارا نہ تھا کبھی
یہ آخری ہی تھا جو فیصلہ سُنا ڈالا
ہمارے دِل نے تِرا نام تک مِٹا ڈالا
زندگی ڈھونڈتی رہتی ہے سُہانے منظر
کاش پھر لوٹ کے آجائیں پُرانے منظرؔ
میں جو اِس بار ہَواوں کی حمایت کرتا
کون جلتی ہُوئی شمعوں کی حفاظت کرتا
محبت وہ حسین احساس ہے،جو دِل میں اُجاگر ہوتا ہے تو دُنیا کو حسین بنا دیتا ہے۔اُردُو شاعری کا سب سے بڑا موضوع ’’محبت‘‘ ہے۔محبت حقیقی ہو یا مجازی ڈاکٹر عمرقیازقائلـؔکی غزل میں دونوں رنگ موجُود ہیں۔پیار و محبت،ہجر و وصال کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرعمرقیازقائلـؔ کی شخصیت کے اثرات بھی ملتے ہیں:
محبت کے حسیں نغمے سُنا کر
وہ کوئل اُڑ گئی جذبے جگا کر
اے میرے دِل تجھے وحشت کدے میں
مِلا کچھ بھی نہیں آنسو بہا کر
وہ میرے ہمسفر راہِ وفا کے
کہاں گم ہو گئے رستہ دِکھا کر
مسافر ہُوں میں انجانے سفر کا
جو ممکن ہو مِرے حق میں دُعا کر
کوئی ساحل پہ بیٹھا رو رہا ہے
گھروندا ریت پر اپنا بنا کر
میں اِتنا بھی دُکھی قائلؔ نہیں تھا
کوئی گزرا ہے پھر نظریں چُرا کر
اِس خُوب صُورت غزل کے خالق معروف شاعر ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ کا تعلق خیبر پختون خوا کے علاقے ’’بنوں ‘‘ سے ہے۔ڈاکٹر عمرقیازقائلؔ پشتو اور اُردُو ادب سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔آج کل ایسوسی ایٹ پروفیسر آف اُردُو گورنمنٹ کالج آف منیجمنٹ سائنسز بنوں خیبر پختون خوا میں علم و ادب کی قندیل روشن کیے ہُوئے ہیں۔ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ ایسی ساحرانہ شخصیت کے مالک ہیں کہ جس محفل میں بھی ہوں جانِ محفل قرار پاتے ہیں۔پیرایہء اظہار میں ڈاکٹر عمرقیازقائلؔ ایک اور کمال اُس کی امیجری،محاکات،اپنے کئی اشعار میںلفظوں سے ایک دُھندلی سی فضا تشکیل دیتا ہے،جو کبھی فطری تو کبھی جمالیاتی محسوسات سے ایسی تصویریں بناتی ہے،جن کے خدوخال غیر واضح ہونے کے باوجُود اپنی تاثریت میں جنگل کی ہَوا کی طرح ہوتے ہیں۔وہ لفظوں کا نباض ہی نہیں اُن کی نفسیاتی جہتوں کا آشنا بھی ہے:
کہاں کہاں سے وہ قائلؔ مجھے مِٹائے گا
میں حرف حرف عیاں جس کی داستان میں ہُوں
اُمید واثق ہے کہ ڈاکٹر عمرقیازقائلؔ اساتذہ فن سے فیض یاب ہو کر ادب کی خدمت یُونہی کرتے رہیں گے۔ڈاکٹر عمرقیازقائلؔ کو اُن کی آنے والی اُردُو شاعری کا اولین مجموعہ :’’محبت عام کرنا چاہتا ہُوں‘‘ کی اشاعت پر میں مُبارکباد پیش کرتا ہُوں اور اُمید کرتا ہُوں کہ وہ اپنا شعری سفر جاری رکھیں گے۔دُعاگو ہُوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب حضرت محمد کے صدقے ڈاکٹرعمرقیازقائلؔ کو قلم کی طاقت ،اخلاص اور شگفتگی کو روزافزوں ترقی سے ہمکنار فرمائے۔(آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔