صفِ ماتم بچھی ہے، سر کھلے ہیں
بڑی مشکل سے انکے ڈر کھلے ہیں
یہ ساری دھند جب جا کر چھٹی ہے
بہت سے بھید تب ہم پر کھلے ہیں
کہانی پر یقیں آتا نہیں ہے
مکیں مفرور ہیں اور گھر کھلے ہیں
بہت محتاط رہنا پڑ رہا ہے
عجب ناموں سے کچھ دفتر کھلے ہیں
اسے میں قید سمجھوں یا رہائی
مرے پاؤں بندھے ہیں ، پر کھلے ہیں
بہت سے چور دروازے بھی نجمیؔ
ہمارے شہر کے اندر کھلے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔