مشہور ہے کہ تاج محل کو جو بھی پہلی بار دیکھتا ہے اسے چند لمحوں کے لئے سکتہ ہو جاتا ہے۔شاید اس لئے کہ نظریں جو دیکھ رہی ہوتی ہیں اور دل جو محسوس کر رہا ہوتا ہے زبان اس کو فوری طور پر ادا نہیں کر پاتی۔بالکل یہی حال میرا اس وقت ہوا جب میں نے عندلیب کی شاعری پر نظر ڈالی۔لوگ مجھے مکالمے کا امام کہتے ہیں لیکن عندلیب کی شاعری نے مجھ سے مکالمے کے تیور ہی چھین لئے۔
عندلیب کے اندر ایک ایسی ماں ہے جو اپنے سے بہت دور۔۔پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے لاوارث بچے کے لئے بھی اتنا ہی تڑپتی ہے جتنا اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے بچے کے لئے بے چین ہوتی ہے۔
اسے اپنی حویلی سے عشق ہے لیکن جب اپنی حویلی کا ماحول دیکھتی ہے تو اسے دنیا کی ہر اُس حویلی کا فکر کھانے لگتا ہے جس میں پرندوں نے آنا اور پھولوں نے کھِلنا چھوڑ دیا ہے۔اسے ملکوں کو تقسیم کرنے والی لکیروں پر اعتراض نہیںلیکن لکیروں کے دونوں طرف بسنے والے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا بہت دکھ ہے۔وہ اپنے دریاؤں کے پانی کا رنگ لال دیکھ کر یہ نہیں سوچتی کہ اِدھر والے کون تھے اور اُدھر والے کون تھے۔وہ چیخ کر کہتی ہے دونوں طرف انسان بستے ہیں جو عالمی سازش کا شکار ہو کر ایک دوسرے کو کھا گئے۔وہ ہر دریا کے کنارے کھڑے ہو کر ایک ہی سوال کرتی ہے کہ جب دریا اپنا پانی نہیں پیتے تو ان کے دونوں طرف بسنے والے انسان ایک دوسرے کا خون کیوں پیتے ہیں۔۔؟اس کی اپنی ہی نہیں پوری دنیا کی تاریخ اور تہذیب پر گہری نظر ہے۔اسے جب پوری دنیا بے شمار شکنجوں میں جکڑی نظر آتی ہے تو وہ خانہ بدوشوں میں جاتی ہے،جن کے اردگرد کوئی دیوار اور کوئی لکیر نہیں ہوتی۔جو پرندوں کے جھنڈ کی طرح پوری دنیا میں گھومتے،آزاد جیتے ہیں،آزاد مرتے ہیں۔
عندلیب اور اس کی شاعری کا سنگم بھی کیا عجیب سنگم ہے کہ انسان فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں خوبصورت تر کون ہے۔
عندلیب کی تصویر ۔۔۔۔ یا
عندلیب کی تحریر۔۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔