کرامت
لوٹا ہوا مال برآمد کرنے کے لئے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کئے۔
لوگ ڈر کے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے۔کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقعہ پا کر اپنے سے علیحدہ کر دیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔
ایک آدمی کو بہت دقت پیش آئی۔اس کے پاس شکر کی دو بوریاں تھیں جو اس نے پنساری کی دوکان سے لوٹی تھیں۔
ایک تو وہ جوں توں رات کے اندھیرے میں پاس والے کنویں میں پھینک آیا ۔لیکن جب دوسری اُٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو خود بھی ساتھ چلا گیا۔شور سن کر لوگ اکٹھے ہو گئے۔کنویں میں رسیاں ڈالی گئیں۔دو جوان نیچے اترے اور اس آدمی کو باہر نکال لیا۔لیکن چند گھنٹوں کے بعد وہ مر گیا۔
دوسرے دن جب لوگوں نے استعمال کے لئے اس کنوئیں میں سے پانی نکالا تو وہ میٹھا تھا۔
اسی رات اس آدمی کی قبر پر دئیے جل رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدقے اس کے
مجرا ختم ہوا۔تماشائی رخصت ہو گئے تو استاد جی نے کہا:سب کچھ لُٹا پٹا کر یہاں آئے تھے لیکن اللہ میاں نے چند دنوں میں ہی وارے نیارے کر دئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشتراکیت
وہ اپنے گھر کا تمام ضروری سامان ایک ٹرک میں لدوا کر دوسرے شہر جا رہا تھا،کہ راستے میں لوگوں نے اسے روک لیا۔ایک نے ٹرک کے مال و اسباب پر حریصانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا’’دیکھو یارکس مزے سے اتنا مال اکیلا اڑائے چلا جا رہا تھا۔‘‘
اسباب کے مالک نے مسکرا کر کہا’’جناب یہ مال میرا اپنا ہے۔‘‘
دو تین آدمی ہنسے’’ہم سب جانتے ہیں‘‘۔
ایک آدمی چلایا’’لوٹ لو یہ میرا آدمی ہے۔ٹرک لے کر چوریاں کرتا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الہنا
’’دیکھو یار،تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لئے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دوکان بھی نہ جلی‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ کی چھٹی
’’پکڑلو۔۔پکڑ لو۔۔دیکھو جانے نہ پائے۔‘‘
شکار تھوڑی دوڑ دھوپ کے بعد پکڑ لیا گیا۔جب نیزے اس کے آرپار ہونے کے لئے آگے بڑھے تو اس نے لرزاں آواز میں گڑگڑا کر کہا:’’مجھے نہ مارو۔۔مجھے نہ مارو۔۔میں تعطیل میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوری
چھُری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ازار بند کٹ گیا۔چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاََکلمۂ تاسف نکلا۔’’چ۔چ۔چ،چ۔۔۔۔مشٹیک ہو گیا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔