دھوپ آہستہ آہستہ پورے صحن میں پھیلی جا رہی تھی، صحن ایک طرف بنے چولہے پرپھاتاں روٹیاں بنا رہی تھی ساتھ ساتھ وہ کچھ بڑبڑائے جا رہی تھی۔’’تو دھیان سے روٹیاں پکا پھاتاں کیا بولی جا رہی ہے منہ ہی منہ میں؟ـ‘‘، اسکا شوہر اس کے پاس بیٹھا چولہے میں آگ کے لیے لکڑیاں جھونک رہا تھا۔وہ مسلسل پھاتاں کی بڑبڑاہٹ سن رہا تھا۔پھاتاں پہلے ہی تپی بیٹھی تھی۔شوہر کی بات سن کر مزید بھڑک اُٹھی۔’’میرا تو دھیان ہے اپنے کام پہ مگر تم دونوں باپ بیٹی بھی کسی کام پر دھیان دے دیا کرو۔دیکھ رہے ہو ناں سارے صحن میں دھوپ پھیل گئی ہے، سویرے سویرے اُٹھ کر جھاڑو ہی لگا دیتی پھر کہے گی دھوپ میںکام نہیں ہوتا‘‘، پھاتاں نے غصے سے شوہر کو گھورا۔
’’چل بس کر اب اُٹھاتا ہوں،بچی ہے جھلی ہے سمجھ آتے آتے ہی آئے گی،تو کیوں اپنا خون جلاتی رہتی ہے؟۔میرے ویہڑے کی چڑی ہے اُڑ جائے گی ایک دن‘‘، علی احمد نے بیوی کو سمجھانا چاہا۔
’’تیری یہ چڑی کہیں نہیں اُڑے گی علی احمد تیرے ویہڑے میں ہی چیں چیں کرتی رہے گی، ساری عمر میرے سر پر سوار رہے گی۔‘‘
’’پھاتاں کبھی تو چنگی گل منہ سے نکال لیا کر کوئی ویلا قبولیت کا بھی ہوتا ہے‘‘۔پھاتاںنے شوہر کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔
علی احمد بیٹی کی چارپائی کی طرف اپنی لاڈلی کو اٹھانے جا رہا تھا، ’’ میری شہزادی اُٹھ پُتر، نہ تنگ کیا کر ماں کو، شابا شابا اُٹھ میری دھی‘‘، چارپائی پر سوئے وجود میں ہلچل ہوئی۔
’’کیا ہے ابا؟ سارا سپنا توڑ دیا تو نے‘‘، اس نے بند آنکھوں سے کسلمندی سے باپ کو جواب دیا۔
’’نہ پُتر تو اُٹھ جا اب تیرے اوپر بھی تو دھوپ آرہی ہے اور سپنے کا کیا ہے کل پھر آجائے گا‘‘،علی احمد نے پیار سے بیٹی کا سر سہلاتے ہوئے کہا۔مگر وہ بھی پوری کی پوری ڈھیٹ تھی، وہیں سے باپ کو مزید سونے کا کہا اور منہ پر چادر لے کر دوبارا لیٹ گئی۔علی احمد بھی اس کی کمزوری جانتا تھا،’’چنگا پُتر میرا ویلا ہوگیا جانے کا اور تو جانتی ہے تیرا ابا تیرے بغیر روٹی نہیں کھاتا‘‘۔
’’چل ابا تو بھی کیا یاد کرے گا‘‘، بیٹی کی طرف سے جواب آیا۔کُچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹی توے پر سے اُترتی گرم گرم روٹی کھا رہے تھے۔
علی احمد،پھاتاں اور اُسکی بیٹی، یہ تھے اس گھرانے کے افراد ۔بیٹی کا نام تو اس نے سوہنی رکھا تھا۔اللہ نے اسے ایک ہی بیٹی سے نوازا تھا۔وہ دونوں کی جان تھی۔لاڈلی تو ماں کی بھی تھی مگر باپ نے تو اُسے سر پر چڑھا رکھا تھا۔پھاتاں اُسے گھرداری سکھانا چاہتی تھی،اپنے گہرے سانولے رنگ کی وجہ سے اپنے محلے میں کلو کے نام سے پکاری جاتی تھی۔نام سوہنی دور رہ گیا۔وہ کلو کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھی،نہ صرف رنگ بلکہ اُس کے نقوش بھی انتہائی بھدے تھے یہی وجہ تھی وہ علی احمد کی جان تھی۔لوگ تو اپنی زبان کے تیر چلا دیتے تھے، وہ کتنی زخمی ہوتی ہے یہ اُس کے ماں باپ جانتے تھے۔
وہ ہمیشہ سب کی تنقید کی زَد میں رہی۔آج تک اسکی کوئی سہیلی نہ بنی تھی۔کچے اور ٹوٹے پھوٹے گھر کی بدصورت کلو کو بھلا کوئی کیوں منہ لگاتا۔اُسکی ہم عمر لڑکیاں اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں،مگر وہ ابھی تک سپنوں میں ہی لال جوڑا پہنے اپنے شہزادے کے ساتھ گھوما کرتی تھی۔اُسکا بھی دل چاہتا وہ بھی لال جوڑا پہنے، رنگ برنگی چوڑیاں اور لال پراندہ پہن کے اپنے اس شہزادے کے ساتھ چلی جائے جو اکژ اُسکے خواب میں گھوڑے پر بیٹھ کرآیا کرتا ہے، مگر اُسکا شہزادہ خوابوں تک ہی محدود رہا۔باپ کی محبت، ماں کی پیار بھری ڈانٹ اور زمانے کی جگر چھلنی کرنے والی باتیں سُنتے ہی اُسکی عمر گزرتی جا رہی تھی۔جوں جوں اسکی عمر گزرتی جا رہی تھی لال جوڑے کا جنون بھی بڑھتا جا رہا تھا۔
آج بھی ماں کی ڈانٹ کا اُس پرکوئی اثر نہ ہوا تھا اورگھر میں اکیلی پڑے پڑے اُکتا گئی تو اپنے واحد دوست باپ کے پاس کھیتوں میں جانے کی تیاری کرنے لگی۔سرسبز پگڈنڈیوں سے اپنی سوچوں میں گُم وہ چلے جا رہی تھی، اُسکا ابا جس کھیت میں کام کرتاتھا اُس راستے میں کسی کا مزارتھا۔آج تو یہاں خوب رونق لگی تھی۔گھوڑے پر سوار دولہا تھا وہ شائید اپنی منّت پوری کرنے آیا تھا۔کُچھ دیر ڈھول بجتا رہا ، دولہا سمیت سب نے دعائیں مانگیں اور وہاں سے چل دیے۔اُن سب کے جانے کے بعد اُس کے من میں آیا وہ بھی کُچھ نہ کُچھ مانگ لے کیا پتا میری بھی سنی جائے۔حالانکہ ابّا اسے منع کرتا تھا،’’نہ پُتّر ہاتھ سوہنے رب کے ٓآگے ہی پھیلانے چاہئیں‘‘، اُس نے ابّا کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اندر دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے۔اگربتیوں کی خوشبو سے کمرا مہک رہا تھا، وہ حیرت زدہ کھڑی تھی۔قبر پر ستاروں اور گوٹے والے گہرے لال رنگ کے دوپٹے سے پورا مزار ڈھکا ہوا تھا ،وہ اپنی دعائیں بھول کے اُ س لال دوپٹے کی خوبصورتی میں کھو گئی۔’’ہائے ربّا کتنا سوہنا ہے یہ لال دوپٹہ‘‘، دوپٹہ اوڑھنے کی خواہش بڑھتی جا رہی تھی، کُچھ لمحے وہ سوچتی رہی پھر چند قدم اور آگے بڑھی اُس نے دِل ہی دِل میں قبر والے بابے کو پکارا’’بابا سائیں مجھے معاف کرنا تھوڑی دیر کے لیے تیری چادر لے جا رہی ہوں شام کو لوٹا دوں گی۔ــ‘‘
اس نے باہر نکل کے اِدھر اُدھر جھانک کر دیکھا اور دوبارا اندر آئی، اس نے جلدی سے لال دوپٹے کو اُٹھایا۔اب وہ گھر کی طرف تیز تیز قدموں سے چلی جا رہی تھی اور گھر جاتے ہی دم لیا۔ دھڑ دھڑ کرتے دِل کے ساتھ اُس نے اندر کمرے کی کنڈی لگائی۔’’ہائے ربّا کتنا پیارا دوپٹہ ہے‘‘، لال دوپٹہ اُس سے سنبھالے نہ سنبھل رہا تھا ۔کمرے میں چھوٹا سا آئینہ جو کہ ایک چہرے کو بھی مکمل دِکھا نہیں سکتا تھا۔
’’یا اللہ کوئی چنگا جیا شیشہ ہی دیا ہوتا اِس میں تو میری شکل بھی آدھی آرہی ہے‘‘۔وہ لال چُنی کو کبھی دائیں سیٹ کرتی تو کبھی بائیں، کبھی سَر پرڈالتی تو کبھی گھونگھٹ نکالتی۔ٹوٹے پھوٹے آئینے سے دِل برداشتہ ہو کر وہ کپڑے دھونے والے تسلے میں پانی ڈال کر اُس میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔وہ خوابوں کی دنیا میں جانے کہاں پہنچی تھی تبھی باہر سے دروازہ بجنے کی آواز آئی، وہ گھبراگئی۔دروازہ بجانے والا مسلسل کُنڈی کھٹکھٹا رہا تھا۔باہر ساتھ والی ماسی کا بیٹا تھا،کلو کی گھبراہٹ قدرے کم ہوئی۔بچے سے کیا ڈرنا یہ سوچتے ہوئے اس نے کُنڈی کھول دی۔
کلو کوئی روٹی پڑی ہے سچی بڑی بھوک لگی ہے۔‘‘
’’ہاں آجا اندر‘‘
’’کلو! یہ چُنی تو نے کہاں سے لی؟‘‘
’’کیوں تو کیوں پوچھ رہا ہے؟‘‘
’’ایسے ہی یہ بڑی سوہنی ہے، ملکانی کی حویلی سے چُرائی ہوگی۔ تیرے ابّے کے پاس اتنے پیسے تو نہیں ہوتے۔‘‘
’’اوئے شوکی میں کوئی چور نہیں ہوں یہ میری اپنی ہے۔‘‘
’’نہ نہ یہ تیری تو نہیں ہو سکتی، سچ بتا نہیں تو میں تیرے ابّے کو بتاتا ہوں کہ تو نے ملکانی کی چنی چوری کی ہے۔‘‘
’’قسم سے شوکی یہ چوری کی نہیں ہے، یہ تو میں تھوڑی دیر کے لیے مانگ کر لائی ہوں ابھی واپسی کر دوں گی۔‘‘
اور پھر کُچھ دیر میں ہی یہ خبر پورے گائوں میں پھیل گئی۔پیر سائیں کے دربار کی چادر چوری ہو اور گائوں میں کوئی آفت نہ آئے کیسے ممکن ہے۔لوگوں کے دِل دہل گئے۔ایک ہجوم کلو کے گھر کے باہر موجود تھا، وہ ڈری سہمی اپنے صحن میں لال چُنی کو مضبوطی سے پکڑے کھڑی تھی۔اُس کے ماں باپ کو بھی خبر کر دی گئی، پورا گائوں پھاتاں اور علی احمد کو کوس رہا تھا۔وہ اُس آنے والے طوفان سے خوف زدہ تھے جو دربار والا بابا سائیں ان پر ُمسلط کرنے والا تھا۔باپ کو دیکھتے ہی کلو اُس سے لپٹ گئی،’’ابّا میں نے چوری نہیں کیـ!‘‘، وہ رو رہی تھی۔’’میں جانتا ہوں پُتّر‘‘، علی احمد نے اُسے سینے سے لگایا۔اب جو شخص علی احمد کے گھر میں داخل ہوا اسے دیکھ کر سب لوگ دہل گئے،وہ موٹے بھدے وجود والا بابا سائیں کے مزار کا مجاور تھا۔’’کیا بات ہے علی احمد یہ گستاخی کیوں کی تیری دھی نے؟‘‘، وہ اپنی لال لال آنکھیں کلو کے وجود پر گاڑے علی احمد سے پوچھ رہا تھا۔’’معافی سرکار معافی غلطی ہوگئی‘‘، علی احمد گڑگڑایا۔،’’میں کون ہوتا ہوں معافی دینے والا ؟ اپنی دھی کو کہہ بابا سائیں سے معافی مانگے۔سات دن سائیں سرکار کے مزار کی خدمت کر ے رَب خیر کرے گا۔ــ‘‘ اور یہ بات سب جانتے تھے کہ یہ خدمت کیسی ہوتی ہے۔’’سائیں یہ ناسمجھ ہے اِسے معاف کر دیں!‘‘، علی احمد مجاور کے قدموں میں گِرا معافی مانگ رہا تھا۔’’عقل کر احمد اپنی دھی کی وجہ سے سارے پِنڈ کو مصیبت میں مَت ڈال،اسے کل مزار کی خدمت کے لیے لے آنا۔‘‘کِسی للچائے گِدھ کی طرح اُس کی نظریں کلو کا جائزہ لے رہی تھیں۔
علی احمد آہستہ قدموں سے چلتا بیٹی کے پاس آیا، اُس پر جنون سوار تھا اُس نے گائوں کی مصیبتوں کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کی عزت کو بھی بچانا تھا۔علی احمد نے پاس پڑی اینٹ اُٹھائی اور بیٹی کے سَر پَردے ماری۔اُس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور بیٹی کا مُردہ وجود اُس کے سامنے تھا۔وہ بُڑبُڑا رہا تھا،’’میں نے عزت بچا لی! میں نے عزت بچا لی!۔‘‘
کلو کے سَر سے بہتا خون اُس کے جوڑے کو لال کر رہا تھا۔آخر رب نے لال جوڑا اُس کا مقدر کر ہی دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔