ہم کہ صدیوں سے مقدر کی لکیروں کے اسیر
ہم کہ جھرنوں کے کناروں پہ کھڑے پیاس لئے
کاسہِ دست میں سوکھی ہوئی شکنیں لے کر
خشک ہونٹوں پہ بلکتی ہوئی عرضی لکھے
منتظر ہیں کہ کبھی کوئی مسیحا آئے
ہاتھ کی خشک لکیروں کو تراوت بخشے
اور ہونٹوں کو کسی رس کا قرینہ دے کر
ہمیں جھرنوں کا مہکتا ہوا بپتسمہ دے
اے خداوند! ترے اذنِ جہانگیر کی خیر
منعکس رنگ کی جے، خوبیِ تصویر کی خیر
کائناتوں کی تراکیب کی تدبیر کی خیر
ہم کہ گمنام سی دھرتی کی سطح کے باسی
تو ہی سمجھا ہمیں امید کا ماوا ہم خود
اپنی ہر پیاس کی الجھن کا مداوا ہم خود
اب تو الہام ہو ہم پر کہ مسیحا ہم خود
ہم کہ اندیشہِ ایام سے بے حال بدن
ہم کہ جھرنوں کے قریں پیاس کی دیواروں میں
کئی صدیوں سے مقدر کی لکیروں کے اسیر