ہم اگر سچ کے انھیں قصُے سنانے لگ جائیں
لوگ تو پھر ہمیں محفل سے اُٹھانے لگ جائیں
یاد بھی آج نہیں ٹھیک طرح سے جو شخص
ہم اُسے’ بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں‘
شام ہوتے ہی کوئی خوشبو دریچہ کھولے
اور پھر بیتے ہوئے لمحے ستانے لگ جائیں
خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت
روشنی ہو تو انھیں لوگ بجھانے لگ جائیں
اک یہی سوچ بچھڑنے نہیں دیتی تجھ سے
ہم تجھے بعد میں پھر یاد نہ آنے لگ جائیں
ایک مدت سے یہ تنہائی میں جاگے ہوئے لوگ
خواب دیکھیں تو نیا شہربسانے لگ جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔