کاش یہ خواب حقیقت ہو جائے
تری دنیا مِری جنت ہو جائے
خود پہ آجائے یقیں انساں کو
معتبر دل کی شریعت ہو جائے
آس باقی ہے تو امکاں باقی
شامِ غم صبحِ مسرت ہو جائے
نوعِ انساں ہے بہت خاص تو پھر
عام اخلاص و مروت ہو جائے
گرد کیوں ہو مرے آئینوں پر
صاف ہر دل سے کدورت ہو جائے
ہو محبت سے محبت سب کو
اور نفرت سے ہی نفرت ہو جائے
قلبِ انساں ہو پنہ گاہِ جہاں
اس میں آفاق سی وسعت ہو جائے
وسعت، دشتِ جنوں لا محدود
بیکراں میری محبت ہو جائے
ہو گئی ہے مِری دنیا بیمار
ٹھیک انساں کی طبیعت ہو جائے
درد کچھ اور بنامِ درماں
دل کی کچھ اور مرمت ہو جائے
خوف آتا ہے کہ خود میں نہ کہیں
دفن زندہ کوئی عورت ہو جائے
اس تعیش کا ہے عادی مِرا دل
کم نہ یہ درد کی دولت ہو جائے
آسماں جھک کے زمیں کو چومے
زندگی خواب کی صورت ہو جائے
دل نے کی ہیں جو خدا سے باتیں
کوئی سُن لے تو مصیبت ہو جائے
تیری پنہاںؔ ہے کنیزی میں تری
شاعری! کچھ تری خدمت ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔