ہائے وہ دن کہ میسر تھی ہمیں رات نئی
روز معشوق نیا ، روز ملاقات نئی
(داغؔ)
نواب مر زا خاں نے اپنے سوٹ کیس سے پانچ تہہ شدہ لفافے بڑی لاپرواہی سے نکالے ۔ اور ایک آرام دہ کر سی پر بیٹھ گیا۔ لفافے کھولتے ہوئے اُس کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ پھیل گئی ۔خالی لفافے کو میز پر رکھتے ہوئے ۔ اُس نے ان پانچوں لفافوں پر نظر ڈالی ۔
پیارے نواب مرزا خاں!
نواب مرزا وہ شام تو تمہیں یاد نہیں ہو گی ۔مگر وہ شام تو ضرور یا د ہے کہ ہم روزیہاں عثمان ساگر کے کنارے آباد کر تے تھے ۔ آج بھی جب اس سا گر کے قریب بیٹھی تمھاری بے اعتنائی کے بارے میں سو چ رہی ہو ں ۔اس ساگر کی لہریں مجھے اپنے ماضی کی طرف لے جاتی ہیں اور میں خود کو چار مینار کے اُس گو شے میں پاتی ہوں ۔ جہاں تم نے چاند کی طرف اشارہ کر تے ہوئے ایک بات مجھ سے کہی تھی…آج تمھاری محبت کا چاند نہ جانے کیوںکا لے مہیب آسمانوں کے پیچھے چھپ گیا ہے۔
نواب مر زا تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ گاؤں پہنچتے ہی خطوط کے ذریعے اپنی محبت کی بارش کر واؤ گے اور کچھ دنوں بعد ، مجھے اپنا لو گے ۔ اب دیکھو نا اس ساگر کی لہر ، مجھے گولکنڈہ کے اُس ویران گوشے میں لے جارہی ہے ۔ جہاںتم نے محبت کے شگو فے میرے دامن میں بکھیر تے ہوئے کہا تھا ۔’’محبت کی کشتی میں اگر تم ساتھ دو ، تو اس دنیا کا کوئی سمندر اپنی چنگھاڑ تی ہو ئی لہروںسے ،مجھے ڈرا نہیں سکتا اور میں اپنی چاہت کے چپوؤ ں سے ایک انجانے جزیرے پر پہنچو ں گا ۔ جہاں صرف میں اور تم ہو گی ۔‘‘
نواب مرزا یاد کرو، وہ لمحا ت جب میری آنکھوں سے ہر منظر ختم ہو چکا تھا ۔ اور ہر جگہ مجھے تمھاری اور اپنی محبت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آتا تھا ۔ کہاں تک لکھوں آج مجھے اپنی حالت اُس کشتی میں بیٹھے ہوئے مانجھی کی طرح لگتی ہے ۔ جس کے ہاتھوں سے سمندر کی بے رحم لہروں نے چپو چھین لیے اور جگہ جگہ مہیب بھنور اپنے منہ کھولے اُس کشتی کو تک رہے ہیں۔
نواب مرزا کم از کم ایک خط ہی لکھ دو ۔ بہت پریشان ہوں ۔ میری حالت بالکل اس ساگر کی طرح ہے جو اپنی بے چینی کو لہروں سے ظاہر کر رہا ہے ۔ یہاں جلدی آؤ …اور دیکھو …میں آج بھی شام کے ساتھ یہاں آتی ہوں…… تمھاری یادوں کو سمیٹے ؎
کبھی ہم اس گلی میں نقش دیوار
کبھی اس بزم میں تصویر غم کی
(داغؔ)
صرف تمھاری
منیر بیگم عر ف منی بائی حجاب ؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب مر زا خاں !
برنداون … شاید اسی نام کے ساتھ ہی ذہن میں وہ لمحات یاد آجائیں گے ۔ جن لمحوں میں تم نے چند و عدے اور چنددعوے کیے تھے ۔ وعدے تو وعدے ہی بن گئے ہیں تمھاری صورت تو در کنا ر تم نے گاؤں جا کر ایک خط بھی نہیں لکھا ۔ رہے تمھارے وعدے تو اُن میں سے ایک دعویٰ تھا۔
’’میں محبت کی سر زمین پرتم سے ملنے کے لیے راہ میں آنے والے صحراؤں میں بھٹکتا وہاں محبت کی نہریں کھو دتا ، چنار کے درختوں کے پاس محبت کا نغمہ الا پتا، تم تک پہنچوں گا۔ ‘‘
آج بھی برنداون کی وہ سڑک اس جملے کی باز گشت کو دہرائے گی ۔ اگر تم سننا چاہو تو …… نواب مر زا کہیں ، تم نے مجھ سے کر شن کی وہ راس لیلا تو نہیں رچائی جب وہ برنداون میں گوپیوں کے سنگت گذرتا تھا ۔ اور بے چار ی رادھا پنگھٹ پر اُس کا انتظار کرتی تھی۔ میں اب بھی اُس پر تمھارا انتظار کر تی ہوں ۔ اور تھک کر گھر واپس لوٹتی ہوں ۔ کیا تمھارا دل اس سڑک سے بھی سخت ہو گیا ہے۔ ہائے نواب مر زا تم ایسے تو نہ تھے ۔ جلدی سے اپنے وعدے پورے کرو ۔ ایک خط ہی لکھ دو ……میری حالت ریگستان میں بھٹکے ہوئے اُس پیا سے مسافر کی طرح ہے ۔ جسے ہر جگہ سراب ہی سراب نظر آتا ہے ۔
تمھاری ہی صاحب جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب مر زا خاں پیارے!
جس دن تم مجھ سے رخصت ہوئے تھے ۔ جب ہی نجانے کیوں مجھے محسوس ہوا تھا کہ یہ لمبی ٹرین میری آرزوؤں کوکاٹتی جائے گی اور حسرتوں کے دھوئیں کے سوا کچھ بھی میرے پاس نہیں رہے گا ۔ مگر پھر اس وہم کو محبت کی ایک بنیادی شرط سمجھ کر اپنے آپ پر غصہ آیا تھا کہ تم ایسے بے وفا تو نہیں ہو سکتے ۔ مگر …میرا خیال نہ ہوتو نہ سہی میری امی کی بے نور آنکھوں کو اور بے نور نہ کرو۔ یاد ہے جب تم امی سے میری شادی کا ذکر چھیڑ دیتے تو اُن کی آنکھوں میںکتنی چمک آجاتی تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا ۔ پل بھر کے لیے دنیا کا سارا نور اُن کی آنکھوں میںسمٹ آیا ہے ۔ روز تمہارے بارے میں پوچھتی ہیں اور میں روز نئے نئے بہانے تراشتی ہوں۔ محض اس لیے کہ کبھی تو تمھیں اپنے وعدوں کا خیال آجائے گااور تم اپنی تمام مصروفیت کو چھوڑے ۔ یہاں آکر مجھے اپنا لو گے۔ نواب مرزا، میری چھوٹی ہمشیرہ کے معصوم خیالات کو مجروح نہ کرو۔ اب بھی وہ تمھیں پوچھتی ہے کہ
’’دولہا بھائی کب آئیں گے ۔‘‘ اب میرے چہرے پر یہ سن کہ بقول تمھاری جسم کاسارا خون سمٹ کر گالوں میں نہیں آ جاتا بلکہ فکر و تردوکی بے شمار لکریں چہرے پر عیاں ہو جاتی ہیں ۔ اور میرا جواب نہ پاکر میری ہمشیرہ ، میرا منہ تکتی رہے جاتی ہے ۔ کہاںتک تمھیں یاد دلاؤں ۔ تم بھی تو نہ بھولے ہوگے خدا را جلدی آجاؤ اور اپنے کہے ہو ئے اس شعر کا خیال کرو … ؎
میرا طریقِ عشق جدا ہے جہان سے
چلتا ہوں چھوڑ چھوڑ کے ہر رہگزر و کو میں
منتظر ؍ حمیدن بائی نقا ب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے اچھے نواب مر زا
نواب مر زا ، بس اتنا ہی کہنا چاہتی ہوں کہ تنہائی جس میں کسی کی چند حسین یادوں کے ساتھ بھی بے وفائی کا گمان ہو تا ہے ۔ بڑی جان لیوا ہو تی ہے ۔ ہر چیز عجیب لگتی ہے ۔ پہلے جس یونیورسٹی کی اونچی جگہ ، شام تمہارے انتظار میں کسی تر و تازہ اور شاداب چہرہ کی طرح نظر آ تی تھی ۔ اب کسی بیمار کا چہرہ دکھائی دیتا ہے ۔ کبھی زندگی ایک حسین خواب نظرآتی ہے ۔ جس میں تمہاری بے وفائی اور شک کے سانپ مجھے ڈستے ہوئے نظر آ تے ہیں ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اب بھی تمہاری محبت بھری باتوں کا خیال آ تا ہے اور پھر میں سہانے سہانے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہوں …… ایک خواب ……جب تم نے رات کے اندھیرے میں یونی ورسٹی سے کچھ دو ر جھیل کے پاس ٹھہرے ہو ئے کہا تھا کہ ’’عمدہ جان میں یہاں گھر بناؤں گا۔ شہر کے ہنگاموں سے دور …رات کی تاریکیوں میں ہم اپنی محبت کے دیے جلائیں گے … اور جھیل کی پر سکون لہریں ہلکے سروں میں ہمارے پیار کوگنگنا یا کر ے گی۔‘‘
آج بھی وہ گھر کا تصور میرے ذہن میں اُسی طرح محفوظ ہے ۔ جب پہلے پہل اس کا احساس ہوا تھا ۔ جب میں نے تم سے مذاقًاکہا تھا کہ کہیں یہ خواب تو نہیں کہے جارہے ہو، تم نے میرے لبوں پر …… اور پھر کہا تھا کہ خواب سے بڑی سچائی کوئی چیز اس دنیا میں ہے ؟ انسان مر جاتا ہے تو اس کے خواب ایک دوسری شکل میں اُبھر آتے ہیں ہاں وہ خواب آج ایک بھیانک اندھیرا لیے اُبھر آئے ہیں ۔ اور مجھے ساری دنیا تاریک دکھائی دیتی ہے ۔ نواب مرزا میرے خوابوں کو ادھورا مت چھوڑو …… دیکھو آج بھی میری آنکھوں میں ایک گھر بسا ہوا ہے ۔ جواب دو، صرف دو بول ہی …
تمہاری اپنی عمدہ جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب مرزا میرے
جناب کو معلوم ہو نا چاہیے کہ آپ عاشق ہیں ۔ اور انداز بالکل معشوقا نہ …… یہ آپ کے طور طریقے ، نا ز و انداز کو استعمال کرنے کا ایک منصوبہ ، میں نے بنایا تھا … مگر جناب نے ہمیں احساس دلایا کہ آپ سے ہی مجھے ناز و انداز سیکھنے پڑیں گے۔ پہلے تو روٹھ جانا ،خط نہ لکھنا ، آنکھیں چرانا ، وعدوں سے مکر جانا ، یہاں سے وہاں تک صنف ِ لطیف کے انداز … ذرا کچھ خیال کرو۔ یہ سچ ہے کہ تم نے کہا تھا کہ تم میرے لیے چاند ستارے توڑ کر لاؤ گے ۔ غالباً اس لیے شر مندہ ہوگئے مگر حضور ، میں نے کب یقین کرلیاتھا ۔ اس لیے دل سے یہ کدورت نکال دیجیے ۔ خیر سے وہ جھوٹے ہی سہی ۔ کیامحبت کبھی جھوٹ کے بغیر مکمل ہو ئی ہے جس محبت میں جھوٹ کا عنصر جس قدر زیادہ ہوگا۔ وہ محبت اتنی ہی جوان ہو گی اور غالباً ہم دونوں ابھی جوان ہیں ۔کم از کم یہ انداز شادی کے بعد اچھے لگتے ہیں ۔ آپ جتنا چاہیں جھوٹ بول سکتے ہیں کہ مجھے حد درجہ مصروفیت تھی یاگاؤں میں نہیں تھا ۔ کسی عزیز کی مسرت میں اپنے ہوش وحواس گم کرچکاتھا۔ میں سب باتوں کا یقین کرلوں گا ۔جان من ! محبت میں کیا نہیں ہوتا ۔ ایک آپ ہیں ہمارے نہ ہوئے ۔ فی الحال ……بعد میں کچے دھاگے ۔
خیر مذاق چھوڑیے …… محبت میں مذاق کی باتیں ہو جائیں تو کوئی بات نہیں …… لیکن محبت بجائے خود ایک مذاق نہیں ہے ۔غالباًآپ کو اس بات کا احساس ہو گا۔ میں اپنا ایک ہی غم بیان کرتی ہوں۔ وہ یہ کہ آج کل میرے کانوں میں صرف پو سٹ مین کی گھنٹی ہی سنائی دیتی ہے ۔
صرف آپ کی اختر بائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹیوں کو پڑھنے کے بعد نواب مرزا خاں کا چہرہ ساکت ہو گیا ۔اور اُس نے مشینی انداز سے ایک ہی مضمون کی پانچ چھٹیاںلکھیں ……………
پیاری !
فرض اور محبت کی جنگ میں ہمیشہ فرض کی جیت ہو ئی ہے ۔ تاریخ کا کلیہ یہی ہے ۔ اُمید کہ اپنی تمام محبت اپنے ہی دل میں رکھیے۔میری شادی میرے والد ِ قبلہ نواب شمس الدین خاں کی خواہش پر بہ عمر پندرہ برس میں فاطمہ بنت یو سف حسین خان سے ہو چکی ہے ۔ اب میں کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا۔
تمہارا نواب مرزا خاں
نواب مر زا خاں ان پانچوں چٹھیوں کو منی بائی حجاب، صاحب جان ، حمیدن بائی نقاب ، عمدہ جان اور اختر بائی کے لفافوں میں بڑی احتیاط کے ساتھ بند کر تا گیا اور ایک اطمینان کا تا ثر چہرے پر عیاں ہوتا گیا ۔ لفافوں کو بند کر دینے کے بعد اپنی مڑی تڑی سگریٹ کو سلگائے ان پانچوں محبت ناموں کو آگ کی نذر کر تا اور سیٹی بجاتا ہوا لفافہ لیے گھر سے نکل پڑا ۔ محبت ناموں کی راکھ کھڑکی کی راہ سے اُس سے بھی تیز فضامیں گردش کر رہی تھی۔
منزل عشق ہے بہ سرائے فانی
رات کی رات ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
(داغؔ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(شعبۂ اُردو ،مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی حیدرآباد دکن کے زیر اہتمام منعقدہ سہ رو ز ہ سمینار بہ عنوان
’’نواب مر زا داغ ؔ دہلوی : عہد حیات اور فکر و فن ‘‘کے موقع پر شام افسانہ (داغ کی زندگی سے متعلق )میں پڑھا گیا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔