معزز خواتین وحضرات!
یہ وسط جون ۲۰۰۵ء کی بات ہے کہ میں ’’دوسری عالمی اردو کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے ٹورنٹو گیا ہوا تھا۔وہاں اپنے کمرے سے جلسہ گاہ جاتے ہوئے جب میں راہ داری سے گزر ا تو بائیں طرف دیوار پر لگی ہوئی پینٹنگز پر میری نظر ٹھہر گئی اور میںایک تصویر کو دیکھ کر رُک گیا۔اُسے غور سے دیکھا۔پُر کشش رنگوں کی آمیزش نے تصویر کو اتنا نمایاں کر دیا تھا کہ میں مسحور ہو گیا۔ جھک کر دیکھا تو اس پر مصورہ کا نام RARVIN درج تھا۔اور تصویر مجھ سے مکالمہ کر رہی تھی۔پیچھے مڑا تو ایک نسوانی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جالبی صاحب! میں پروین ہوں۔میں اس لمحے تصویر کی خالق سے مل کر بے انتہا مسرور ہوا۔ان کی تصویروں کی تعریف کی کہ یہی حاصلِ فن ہے،اور پھر جلسہ گاہ کی طرف مُڑ گیا۔اس دن پروین سے آتے جاتے کئی بار ملاقات ہوئی اور ہر بار ان کی تصویر میرے ذہن و دماغ کو گدگداتی رہی۔اسی شام کو معلوم ہوا کہ وہ شاعرہ بھی ہیں اور موسیقار بھی۔ستار بجاتی ہیں اور اچھا بجاتی ہیں۔اس طرح فنون لطیفہ میں سے تین فنون سے ان کا تعلق ایک ایسا دلچسپ پہلو تھا کہ جس نے ان کے کام سے میری دلچسپی کو گہرا کر دیا۔پھر میں کانفرنس میں مصروف ہو گیا اور تین دن بعد واپس کراچی آگیا اور اس طرح بات آئی گئی ہو گئی۔اس کے چند ماہ کے بعد ایک خوبصورت تحفہ ملا جس پر ’کرچیاں‘کا لفظ درج تھا۔یہ پروین کی شاعری اور مصوری کاایک ایساخوبصورت مجموعہ تھا کہ اس جیسا مجموعہ میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔موضوع،مواد اور طباعت کے اعلیٰ معیار کا قابلِ رشک مجموعہ،جس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک صفحے پر پروین کی اردو شاعری،انگریزی ترجمے کے ساتھ اور ایک طرف اس نظم کی مناسبت سے پروین کی پینٹنگ۔اور چونکہ دونوں کی خالق ایک ہے اس لیے شاعری و مصوری میں روحِ تخلیق بھی ایک ہے۔یہی وہ کتاب ہے جس کی تقریب اجراء کے موقع پر ہم سب آج یہاں جمع ہوئے ہیں اور ’’کرچیاں‘‘نامی کتاب کی تخلیق پر پروین کو دلی مبارکباد دے کر ان کی اس تصنیف کی تحسین میں لب کشا ہوئے ہیں۔
کرچیاں یقیناََ ایک منفرد کتاب ہے جس کی تصنیف و ترتیب میں پروین شیر کے فنی سلیقے نے شعور کے ساتھ ایک نئی بستی آباد کی ہے۔اس کتاب کی تصنیف،ترتیب،حسن سلیقہ اور فنی شعور پر میں بھری محفل میں ،دل کی گہرائیوں سے پروین شاعرہ اور پروین مصورہ کو مبارکباد دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اپنی مصوری سے پروین نہ صرف کناڈا میں بلکہ ساری دنیا میں اپنا نام روشن کریں گی اور بحیثیت شاعرہ بھی وہ دنیائے ادب میں سب کوچونکا کر اپنا مقام پیدا کریں گی۔پروین کا تخلیق فن ،جس میں شاعری اور مصوری دونوں شامل ہیں،کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ وہ سنجیدہ کاوش ہے جسے ہم سب کو سنجیدگی سے لینا اور سمجھنا چاہئے۔شہرت سب کی خواہش ہوتی ہے لیکن یہاں یہ خواہش اس لیے صرف خواہش نہیں ہے کہ پروین نے سچائی کے عمل سے اپنے فن کو جلا دی ہے۔’کرچیاں‘ اسی واسطے میرے لیے ایک نہایت سنجیدہ کاوش ہے،جس میں پروین نے اپنی روح کو خونِ جگر سے سینچا اور نمایاں کیا ہے۔میں نہ صرف اس مجموعے کی ترتیب،تالیف و طباعت سے بلکہ پروین شیر کی شاعری اور مسوری دونون سے حد درجہ متاثر ہواہوںاور بھری محفل میں ستائش و تحسین کے ساتھ ،ایک بار پھر مبارکباد دیتا ہوں۔
جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے اس میں عصری شعور اور کربِ تخلیق نے ایک ایسی روح پھونک دی ہے کہ ان کی نظمیں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔پروین کی شاعری میں جہاں احساسِ تنہائی متاثرکرتا ہے وہاں دیس کو پردیس اور پردیس کو دیس بنانے کا تجربہ بھی ایک ایسے اضطراب کو جنم دیتا ہے جو پروین کی شاعری کی پہچان بن گیا ہے۔اور اس لیے ان کی شاعری میں جو آواز جنم لیتی ہے وہ ان کے لہجے کے لحن کو حزنیہ بنا دیتی ہے۔یہ حزنیہ لہجہ بھی پروین کی شاعری کی ایک اور پہچان ہے۔پروین کی شاعری کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ عام و خاص دونوں قسم کے تجربوں کو سادہ الفاظ میں اس طرح بیان کر دیتی ہیں کہ ان کا تجربہ قاری تک پہنچ جاتا ہے۔اپنے تجربے کو دوسروں تک پہچانے کا یہ تخلیقی عمل پروین کا کمالِ فن ہے۔مثلاََ ان کی نظمSurvival (جس کے لیے ’بقا‘کا لفظ بطور عنوان استعمال کیا جا سکتا تھا)کو لیجئے یا ان کی نظم ’کٹھن سوال‘یا’ تذبذب‘ کو پڑھیے تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے ۔اپنی بات کی مزید وضاحت کے لیے میں پروین کی نظم Survival یعنی’بقا‘ کو پڑھتا ہوں۔نظم یہ ہے:
’’یہ میرے ان گنت چہرے ہیں،لیکن
سب ادھورے ہیں
کوئی آڑا،کوئی ترچھا
کوئی آدھا،کوئی بس ایک چوتھائی
یہ سب چہرے مِرے اپنے ہیں، لیکن
سب ادھورے ہیں!
میں اس پتھر کی دنیا میں
بچانے کے لیے بس ایک اصلی سچے چہرے کو
کئی چہروں میں بٹ کر جی رہی ہوں
موت آنے تک
یہی اک راستہ تھا اپنی منزل تک پہنچنے کا
یہی اک طرز تھی دنیا میں اپنا نام کرنے کی
یہ میرے ان گنت چہرے ہیں،لیکن
سب ادھورے ہیں
نہ گویائی کو لب ہیں اور نہ بینائی کو آنکھیں ہیں
نہ سننے کے وسیلے ہیں
میں خود اب ریزہ ریزہ ہوں
کہاں ڈھونڈوں میں اپنے اصلی چہرے کو؟
وہ چہرہ جو کہ سالم تھا؍وہ چہرہ سچ کا داعی تھا
وہ چہرہ کھوگیا ہے ان سبھی چہروں کے جنگل میں
یہ چہرے میرے چہرے؍ان گنت چہرے
یہ سب کے سب ادھورے ہیں!!؍‘‘
ان کی شاعری اور مصوری کے بارے میں اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن میں اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں،پروین کی شاعری یقیناََ توجہ طلب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔