اب تم کو یاد کرتے، بہانے نہیں رہے
اب دل میںدردوغم کے خزانے نہیں رہے
اپنی وفا سنبھالو،محبت بھی لے ہی لو
اب دل میں رکھنے کو مِرے خانے نہیں رہے
انجام خانہ جنگی کا آخر ہوا بخیر
دستار تو بچا لی ہے ، شانے نہیں رہے
الفت کے سب صحیفوں میں تحریف ہو چکی
اب اگلے روزوشب وہ زمانے نہیں رہے
یہ شہر کوئی شہر ہے،اک شجر بے وقار
خوش رنگ پنچھیوں کے ٹھکانے نہیں رہے
لو چاند بھی چلا گیا چپکے سے زیرِ آب
وہ کس سے دکھ کہے کہ دوانے نہیں رہے
دل کی گزارشات پہ کچھ غور تو کرو
پیشِ نظر وہ رنگ سہانے نہیں رہے
پھیلی ہوئی عمیق اداسی ہے چار سو
اک اجڑا اجڑا تھل ہے گھرانے نہیں رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔