کوئی رتجگا ہے
کوئی رتجگا ہے
جو صدیوں پہ پھیلا ہوا ہے
یہ آنکھیں کہ سکتے سے
پتھرہوئی ہیں
یہ شانے کہ گہری تھکن سے
جھکے ہیں
یہ پاؤں کہ رُکنے سے
جن پر ورم آگیا ہے!
کوئی رتجگا ہے
کہ جس کا کوئی نقطۂ ختم
کوئی کنارہ نہیں ہے
زمینوں پہ تھوڑی سی بادِ صبا
کوئی رنگوں کا ریزہ
ذرا سی مہک
آسمانوں میں ہلکا سا بُرّاق پَر
ایک چھوٹی سی کالی گھٹا
کوئی ننھا سا مدھم ستارہ نہیں ہے
کسی ذی نَفَس کو
یہاں ایک لحظہ بھی
سونے کا یارا نہیں ہے
بلاتی ہیں ریشم سی بانہیں
حریری نظرکھینچتی ہے
نہ جسموں کے اطلس ہی آواز دیتے ہیں
صبحیں،بہاریں نہ شامیں غنودہ
کسی ایک آغوش پر بھی یہاں
اپنی چھب آشکارا نہیں ہے!
گھروں میں ازل سے
گداز اور تہ دار بستر لگے ہیں
مگر لوگ گلیوں میں نکلے ہوئے ہیں
چھتوں پر کھڑے ہیں
خلا کی طرف دیکھتے ہیں
کہیں اُڑ گئی ہے پری نیند کی
جس کی آنکھوں میں
سُرخی کے مَلکوتی ڈورے تھے
جادو تھا جس کا فضا میں
فنا اور بقا میں
ہوا میں
جھلکتا تھا جس کا پیالہ
سیاہی سفیدی کے مابین
دھندلا سا ہالہ
جسے توڑ کر اپنا جوہر سمیٹے
کہیں خواب رخصت ہوا ہے
کوئی رتجگا ہے
جو صدیوں پہ پھیلا ہوا ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔