بیٹا اب دن زیادہ گرم ہونے لگ گئے ہیں۔ کیا کہتے ہو۔ چلیں سجناں کے دروازے۔ ہاں جی۔ دن۔ بھی بہت زیادہ گرم ہو گئے ہیں اور کل بابو رفیق بھی کہہ رہے تھے کہ گلزار بابا جی بہت محنت کرنے لگ گئے ہیں۔ ایک تو پیرانہ سالی دوسرا گرمی کا موسم، مجھے بابا جی کا کام کرنا بہت تکلیف دینے لگا ہے۔ گلزار بابا جی کو آرام کی ضرورت ہے۔ ویسے میری بھی آپ سے استدعا یہی ہے کہ بہت دن ہو گئے سجناں کے دروازے پر چلتے ہیں۔ نہ جانے کیوں میرا بھی دل اداس اداس رہنے لگا ہے۔ ناں جی میرے بیٹے۔ اداس کیوں ہو۔ اداسی منزل کو کھوٹا کرتی ہے۔ باقی تمہیں تو بخوبی اندازہ ہے کہ سخت گرمی میں تپتے سورج کے نیچے گیلی مٹی سے اینٹیں بنانے میں مجھے کتنا مزہ آتا ہے۔ رزق حلال کے لئے اگر لقمہ کمانا ہے تو محنت سے جی مت چرائو۔ ہاں جی۔ جسم کے روئیں روئیں سے جب پسینہ بہتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رزق حلال کیسے کمایا جاتا ہے۔ ویسے بابا جی۔ بابو رفیق بہت اچھا آدمی ہے ۔ ہمارا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہماری اجرت ہمیں دے دیتا ہے۔ گلزار بیٹے۔ بابو رفیق کے والد کا بھی یہی دستور ہے۔ خون کا اثر دیکھا تم نے۔ بابو رفیق بہت ہی سچا اور اچھا انسان ہے۔ و ہ رزقِ حلال کمانے والوں کا مددگار ہے۔ پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرنے والوں کا رزق بھی ہمیشہ فراواں ہوتا ہے۔ اللہ ،بابو رفیق کا بھلاکرے۔ ہمارا بڑا خیال رکھتا ہے۔ بابا جی۔ بابو رفیق کہتا ہے کہ جس دن سے بابا اللہ دتہ اس بھٹے پر کام کرنے آئے ہیں۔ اس دن سے لے کر آج تک بھٹے کی چمنی کا دھواں جاری و ساری ہے۔ وہ اپنی خوشحالی کو آپ کی وجہ سے مانتا ہے۔ گلزار بیٹے۔ یہ سب بابو رفیق کا حسن ظن ہے۔ ورنہ اس کی خوشحالی اس کی انسان دوستی، رحم دلی، محبت اور خلوص کی وجہ سے ہے۔ آج سے دس سال پہلے جب میں یہاں اس بھٹے پر آیا تھا تو یہ بھٹہ بند پڑا تھا اور بابو رفیق کا ضعیف والد بابو رفیق کے ساتھ گدھے پر کچی اینٹیں بیچا کرتا تھا۔ میں نے اور بابو رفیق نے اللہ کا نام لے کر اس بھٹے کو شروع کیا۔ بابو رفیق کی محنت رنگ لائی اور آج وہ اللہ کے فضل سے کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے مگر بابا جی آپ یہاں آئے کیسے؟ گلزار بیٹے۔ میں سیلانی فقیر۔ اپنے چند دوستوں کے پاس بلوچستان کے ایک دور دراز گائوں میں ٹھہرا ہو ا تھا۔ ایک دن ایک بوڑھا میرے پاس آیا اور کہامیاں کب تک در در کی ٹھوکریں کھاتے رہو گے۔ اٹھو اور جہلم کے پار ایک گائوں ہے ۔ وہاں ایک غریب آدمی بڑھاپے میں کچی اینٹیں بناتا ہے اور اس کا جوان بیٹا اپنے گدھے پر وہ اینٹیں بیچتا ہے۔ جلدی جائو اور اس شخص کی مدد کرو۔سو گلزار بیٹے ہم آئے نہیں بھیجے گئے ہیں۔بابا جی۔ اب میری بھی سنو۔ تقسیم ہند سے پہلے دو آبے کی سر زمین ہمارا مسکن تھی۔ میرے والد گائوں کے نمبردار تھے۔ خاصی خوشحالی تھی۔ ایک دن کسی نے تاروں بھری شام کو ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ ملنے کا مقام گائوں سے پرے ایک کھنڈر طے ہو اتھا۔ میں اپنے محبوب سے ملنے کھنڈر جا پہنچا۔ گائوں کی رات۔ تاروں کی ہلکی ہلکی روشنی اور انتظار کی گھڑیاں ۔۔۔ طویل ہوتی گئیں۔ دل بے کل ہوتا گیا۔ پیا سے ملنے کی آس جب جاتی رہی۔ وہ نہیں آئی ۔ میں مایوس، دل شکستہ، اپنے گھر واپس آگیا۔ پھر رات کو نہ جانے کس وقت میری آنکھ لگ گئی ۔ میں نے ایک خواب دیکھا۔ جس میں مجھے آپ کی تصویر دکھائی گئی اور کہا گیا کہ جا اسے تلاش کر۔ بابا جی! میں آپ کی تلاش میں برسوں مارا مارا پھرا ہوں۔ گلزار بیٹے ۔ بس بہت سی باتیں ان کہی رہنے دے۔ اظہار مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ بس تم یوں کرو کہ کل بابو رفیق سے آہستہ سے کہہ دینا کہ ہم سجناں کے دروازے جانا چاہے ہیں۔ اگر بابو رفیق مان جائے تو پریم کی جوت جگانے سجناں کے دروازے چلیں گے۔ گلزار بیٹے۔ سجناں کی اور جاتے ہوئے قدم خود بہ خود آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے فاصلہ کم ہوتا جا تا ہے۔ مضمحل روح کو قرار آتا جاتا ہے۔ بابا جی سنا ہے کہ کچھ دنوں بعد سجناں کا میلہ لگنے والا ہے۔ بہشتی دروازہ کھلنے والا ہے۔ لوگ جوق در جوق آئیں گے۔ دل کی مرادیں پائیں گے۔ دھکم پیل ہوگی۔ چوکھٹ چومنے کی آرزو ہوگی اور ۔۔۔ اور۔۔۔۔ گلزار بیٹے۔ بس سجناں سے ملنے کی ہماری خواہش پوری ہوگی۔ برسوںکی تشنگی ایک عجب تماشہ برپا کرے گی۔ بیا کل من کو شانتی ملے گی مگر کیسے؟بس بھئی پیا ملن کی آس۔ ۔ بابا جی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میرے ایک ہاتھ میں اکتارہ ہو۔ دوسرے میں کشکول۔ سر پر رنگ برنگی ٹوپی ہو۔ زبان پر سجناں کا نعرہ ہو اور۔۔۔ گلزا ر بیٹے ۔ سجناں کے دروازے چلیں گے تو پتہ چلے گا کہ کیسا کھیل تماشہ ہوگا۔ تم تیاری کرو۔ کل سجناں کی اور چلیں گے۔ بابا اللہ دتہ کو ایسا محسوس ہوا کہ کوئی سر ہانے کھڑا پنکھا جھل رہا ہے۔ یکدم اللہ دتہ نے آنکھیں کھولیں اور کہا۔ ارے نوراں بہن آپ۔۔۔ میری اچھی بہن اتنی تکلیف نہ کیا کرو۔ بھیا۔ آپ کے ساتھ رہتے ہوئے تیس سال ہو گئے ہیں۔ آپ میرے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ سو دل میں تڑپ اٹھتی ہے کہ اپنے بھیا کی خدمت کروں۔ نوراں بہن اچھا ہوا کہ آپ آگئی ہیں۔ آج ہم در بار جا رہے ہیں۔ جانا تو ضروری نہیں تھا مگر برسوں پرانا اک قصہ ختم بھی کرنا ہے۔ سو ہم جاتے جاتے، بابو رفیق سے کہہ دیں گے کہ وہ تمہاری بچی کی شادی کہیں کردیں۔ یہ اہم فرض ہے ۔ سو امیدہے کہ بابو رفیق ہماری بات نہیں ٹالیں گے۔ میری بہن آپ اپنے دل کو ہلکا نہ کریں۔ بابا جی۔ دربار والوں سے میرا سلام بھی کہہ دینا۔ ہاں بہن۔ آپ کا سلام پہنچ جائیگا۔ باباجی میں ناشتہ لائی ہوں آپ ناشتہ کر لیں۔ نوراں بہن لائی ہے۔ گلزاربیٹے آئو ناشتہ کر لو۔ اچھا جی۔ آئیے ناشتہ کرتے ہیں۔ بھائی صاحب۔ آپ واپس تو آئیں گے نا؟ میری بہن ہم ضرور واپس آئیں گے۔ آگے مرضی سجناں دی۔ اگر روک لیا تو رک جائیں گے۔ یہ جی۔ گلزار بیٹا بھی جائے گا۔ جی بہن۔ گلزار بھی جائے گا۔ معاملہ بڑا ٹیڑھا ہے۔ خیر جو اللہ کو منظور۔ بابا جی۔ ٹوپی پہن لوں۔ اکتارہ لے لوں۔ ٹھیک ہے بیٹے۔ بس چلنے کی تیاری کرو۔
بابا جی اتنی لمبی قطار ۔ اتنے سارے لوگ ۔۔۔ میلہ سا لگا ہوا ہے۔ کتنی کشش ہے۔ سجناں کے دروازے بیٹا۔ ہر دوارے ایسا ہی ہوتا ہے۔ محبت کے رنگ عجیب ہیں۔ کوئی سجناں کی چوکھٹ چومنے کیلئے سارا سارا دن سخت گرمی میں کھڑا رہتا ہے اور کوئی سخت گرمی میں سار ا دن کچی اینٹیں تھا پتا رہتا ہے ۔ بابا جی۔ یہ آگ بھی کیا چیز ہے کچی مٹی تک کو پختہ کر دیتی ہے۔ ہاں جی۔ من کی آگ بھی عجیب ہے ۔ کبھی خام کو کندن بنا دیتی ہے۔ بس جی۔ یہ انوکھا رمز بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے ۔ بابا جی۔ اژدہام زیادہ ہے۔ میرا د ل چاہ رہا ہے کہ شہر کااک چکر لگا آئوں۔ جو اچھا لگے کرو۔ اپنی دلی حسرت بھی پوری کر لو۔با با جی۔ آپ کہیں ملیں گے؟ بیٹا ۔ میں نے کہا ںجانا ہے بس جی، سجناں کی چوکھٹ کے پاس ہی رہوں گا ۔ تم اپنے من کی بات مانو۔ جائو میرے بچے ۔اچھا جی ہم چلتے ہیں۔ اور پھر گلزار اکتارہ بجاتا آگے بڑھنے لگا۔ اس کا دل نہ جانے کیوں چاہ رہا تھا کہ وہ زور زور سے گائے ۔ لہرائے۔ اس کے منہ سے نہ جانے کیسے کیسے گیت نکل رہے تھے۔ وہ مستانہ وار گلیوں گلیوں اکتارہ بجاتا ، گاتا گزر رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس بھرے پرے شہر میں اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔ گلزار ایک گلی سے دوسری۔۔ دوسری سے تیسری۔۔۔ اور یو ں نہ جانے کتنی گلیاں، کتنے گھنٹوں میں گھوم چکا تھا۔ ایک جگہ وہ ذرا سا ر کا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ زمین نے اس کے پائوں پکڑ لئے ہیں، اس نے درد بھرے لہجے میں اپنا گیت الاپا۔ اجڑ گئی مورے من کی دنیا۔۔۔بس ایک یہی الاپ وہ الاپے جا رہا تھا۔ کہ ایک گھر کا دروازہ کھلا۔ گلزار کو ایسا محسوس ہوا کہ بادِ نسیم کا کوئی تازہ جھونکا اسے چھو کر گیا ہے۔ وہ دروازے کے اور قریب ہو گیا۔ لب بول الاپ رہے تھے۔ اکتارہ بج رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی جانی پہچانی خوشبو اس کے ارد گرد منڈ لا رہی ہے۔ گلزار کا سارا جسم وفور مسرت سے لرز رہا تھا۔ اس نے خود سے کہا ۔ گلزار ۔ کیا ہے ۔ کون ہے۔ تجھے کس کا انتظار ہے۔ بابا جی۔ کیا مانگتے ہو۔ آواز اسے جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ فضا پر خوشیوں کی گھٹا چھا گئی۔ یہ آواز اسے مانوس لگی۔ دل سے ایک شعلہ سا لپکا۔ بابا جی ہم غریبوں سے کیا مانگتے ہو۔ گلزار نے بڑے غور سے دوبارہ آواز کو سنا۔ اس کے کانوں میں اس آواز نے جیسے رس گھول دیا ہو۔ اس کے جسم میںمیٹھا میٹھا درد ہونے لگا۔ زبان اکڑ نے لگی۔ دل خوشی سے اچھلنے لگا۔ گلزار نے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور کہا۔ بی بی ۔ آپ نسیم تو نہیں ہیں، پنج پیر محلے والی۔ اونچی حویلی والی۔
ہائے اللہ۔ تم کون ہو۔۔ تنویر، نصیر، ضمیر باہر جائو۔ دیکھو کون آیا ہے۔ تھوڑی دیر میں تین کڑیل جوان دروازے سے باہر آئے اور کہا۔ بابا جی۔ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں ۔ کس سے ملنا ہے۔
میرے بچو! خاتون آپ کی کون لگتی ہیں۔ ہماری امی ہیں ۔ جناب ۔ نسیم بی بی۔ بیٹا۔ اپنی امی سے کہو کہ گلزار آیا ہے۔ پنج پیر محلے والا۔ میاں کی بیٹھک والا۔ امی ۔ بابا جی کہتے ہیں کہ گلزار ان کا نام ہے ۔ محلہ پنج پیر۔ میاں کی بیٹھک۔ میرے بیٹو۔ گلزار کسی زمانے میں ہمارے پڑوسی تھے۔ ہمارے ہم وطن ۔ انہیں بیٹھک میں بٹھائو ۔ شربت پانی پلائو۔ بیٹا آج چالیس سال کے بعد ملے ہیں۔ تینوں نوجوانوں نے بے ساختہ کہا۔ آئیے جناب بیٹھک میں بیٹھتے ہیں۔ نہیں میرے بچو! فقیر دروازے پر ہی اچھے لگتے ہیں۔ دردرپھرنے والے۔ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے بس بچو۔ زندہ رہے تو پھر ملیں گے۔ اپنی امی سے ہمارا سلام کہنا۔ یہ کہتے ہوئے گلزار اکتارہ بجاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ اب اس کی زبان چپ تھی اور اکتارہ بول رہا تھا ۔ دل سو رہا تھا۔ گلزار ایک دو گلیاںعبور کرنے کے بعد ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے برسوں کی سوئی ہوئی آگ بھڑک اٹھی ہو۔ اس نے اکتارہ زمین پرر کھا۔ سر سے ٹوپی اتاری۔ حسرت سے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا۔ سجناں جی۔ ہمارے بابا صاحب کہاں ہیں۔ ہمارے بابا صاحب کہاں ہیں۔ ہمارے بابا صاحب کہاں ہیں۔ گلزار زور زور سے پکار رہا تھا۔ بابا صاحب کہاں ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ گلزار نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے گلی کی جانب دیکھا۔ با با اللہ دتہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب آئے اور کہا۔ گلزار بیٹے۔ ٹوپی عزت کی نشانی ہے۔ اسے پہنو۔ اکتارہ اٹھائو گلی گلی جائو۔ بھونرے آرا م کہاں کرتے ہیں۔ نہیں بابا جی۔ نہیں کسی کیلئے ۔ وہ ملی بھی تو ایسے جیسے خشک گلاب۔ گلزار بیٹے۔ بچھڑنے والے ایسے ہی ملتے ہیں۔ بیچ میں سمے بیت جاتے ہیں۔ وقت کی گرد بڑی بے رحم چیز ہے ۔ بہت سی باتوں پر مٹی ڈال دیتی ہے۔ مٹی پر مٹی پڑے۔ مٹی مٹی ہو جائے۔ ہمارے چاہنے سے لکھا مٹ نہیں سکتا۔ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ سو اب کیا ہے بیٹا۔ چل اٹھ۔ اپنی راہ کھوٹی نہ کر۔ چل سجناں کے دروازے۔ دیکھ بہشتی دروازہ۔ بابا جی میرے کانوں میں آواز آرہی ہیں۔ کوک فریدا کوک ، کوک فریدا کوک
سچ بیٹا۔ پی پی پکارے پپیہا ۔ اٹھ آگے چلیں۔ گلزار اکتارہ بجاتا جا رہا تھا۔ اور بابا اللہ دتہ کوک فریدا کوک ، کوک فریدا کوک کہتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔