13.01,2024 کو میں پورے 72 سال کا ہونے والا ہوں۔گزشتہ پندرہ برس سے متعدد بیماریوں اور دوسرے دکھوں کو بھگت چکا ہوں۔وقفے وقفے سے دل کی پانچ بارسرجری، پھر48 سال تک دکھ سکھ میں ساتھ نبھانے والی مبارکہ کی وفات ،اور ان کی وفات کے چند ماہ بعد مجھے کینسر کی تشخیص۔۔۔کینسر بھی پہلے گردے میں،پھر جگر میں اور پھر دماغ میں۔۔۔۔ان تین حملوں کے ساتھ ہی متعدد دیگر عوارض کی مسلسل دو برس تک یلغار، جن کا حال اپنی کتاب ’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘میں لکھ چکا ہوں۔اور پھر ان ساری بیماریوں سے نجات پاکر پوری طرح صحت یاب ہونے تک زندگی کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ایک طرف نظر پہلے سے کمزور ہو رہی ہے تو دوسری طرف’’ بصیرت‘‘ بڑھتی جا رہی ہے۔’’بصیرت‘‘کو کاماز میں اس لئے لکھا ہے کہ یہ کوئی عام معنوں میں نہیں ہے۔اب میں دنیا جہان کوزیادہ دور تک اور زیادہ باریک بینی سے دیکھنے لگ گیا ہوں۔میری اس’’بصیرت‘‘ اور باریک بینی کو آپ ’’سترے،بہترے‘‘ ہونے کا اثر بھی کہہ سکتے ہیں۔
باریک بینی کے ثبوت کے لئے انڈیا اور پاکستان کی ایک ایک مثال بیان کر دیتا ہوں۔پاکستان میں دو فلمی ہیروئنیںتھیں۔اب بھی پسند کی جاتی ہیں۔ایک کا نام RIMA (ریما)اور ایک کا نام MIRA (میرا)۔۔۔دونوں کے مجموعی حروف ایک جیسے ہیں لیکن حروف کے تھوڑے سے آگے پیچھے ہو جانے سے دو مختلف نام بھی بن گئے اور دو مختلف شخصیات بھی بن گئیں۔دونوں شخصیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ریما کے ذکر پر چہروں پر رونق سی آ جاتی ہے جبکہ میرا کے ذکر پررونق کے ساتھ استہزائیہ مسکراہٹ پھیل جاتی ہے حالانکہ اداکارہ وہ بھی اچھی تھیں۔اسی طرح انڈیا میں ایک خوبصورت فلمی ہیروئن ہوا کرتی تھیں، ٹینا منیم۔۔۔ان کی شادی انڈیا کے سب سے زیادہ دولتمند امبانی خاندان کے چھوٹے سپوت انیل امبانی سے ہوئی۔ امبانی خاندان کے بڑے سپوت مکیش امبانی کی بیگم کا نام نیتا ہے۔NITA اور TINA دونوں کے حروف بھی ایک جیسے ہیں، لیکن حروف کو تھوڑاسا آگے پیچھے کرنے سے یہاں بھی دو نام بن گئے ہیں اور یہاں بھی دو مختلف شخصیات سامنے ہیں۔ایک زمانے میں میرا پیٹ بہت بڑھ گیا تھا اور مبارکہ اس طرف توجہ دلانے کے لئے مجھے پیار سے ’’ڈھول ماہی‘‘ کہنے لگ گئی تھیں۔بعد میں بیماریوں نے 90 کلو وزن سے 50 کلو تک پہنچا دیا تھا۔خیر اب 75 کلوکا ہوگیا ہوں(ماشاء اللہ)۔یہ ڈھول ماہی والی بات اس لئے یاد آئی کہ اب ٹینا منیم اتنی صحت مند ہو گئی ہیں کہ انیل امبانی انہیں پیار سے ڈھول جانی کہہ سکتے ہیں۔ویسے ٹینا فلمی ہیروئن تھیں،انہیں خود کو سنبھال کر رکھنے کا ہنر آنا چاہئے تھالیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ان کے بر عکس شو بز سے الگ تھلگ رہنے والی نیتاامبانی خاندان کی بڑی بہو ہونے کے باوجودبڑی نہیں لگتیں بلکہ حیرت انگیز طور پرباربی ڈول لگتی ہیں،باربی ڈول بھی ایسی کہ جن کے سامنے بالی ووڈ کی باربی ڈول بھی مدھم پڑ جائے۔انڈیا اور پاکستان کی ان دو مثالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ میری باریک بینی کس حد متحرک ہے۔میں اب بہت دور کی چیزوں کو بھی بہت قریب سے دیکھنے لگا ہوں۔
ہماری ادبی دنیا کے بہت سارے معاملات ایسے ہیں جنہیں ہم نے کسی محبت، عقیدت اور افسانہ طرازی کے زیرِ اثرکیا سے کیا بنا کر رکھ دیس ہے۔ایسے افسانوں کے ساتھ بعض مشہور اور شاندار قسم کے ادیبوں کے نام جوڑ دئیے گئے ہیں۔اب میری مشکل یہ ہے کہ ایسی بعض کہانیوں کا دوسرا رخ سامنے لاؤں تو سیدھے سبھاؤ یہ الزام آئے گاکہ بڑے مشہور ناموں کی بعض کمزوریاں بتا کر شہرت کمانا چاہتا ہوں، چپ رہوں تو بہت سارے افسانے حقیقت مان لئے جائیں گے۔عشقِ حقیقی قرار پائیں گے۔عشق کے روایتی قصوں نے ہمارے قصہ گو اور قصہ پسند ذہنوں کو ابھی تک اپنا اسیر بنا رکھا ہے۔اسی کا اثر ہے کہ ہم آج کے بعض کرداروں کے تھوڑے سے سچ میں بہت سارا جھوٹ ملا کر ان کو پرانے قصوں کے آئینے میں دیکھتے ہوئے کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے!
امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی کے عشق کی داستان بھی حقیقت سے زیادہ افسانوی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ اس عشق کا اقرار ساحر لدھیانوی کی طرف سے کبھی نہیں ہوا۔حالانکہ اس نوعیت کے عشق ہوں تو مردوں کو اس کا ذکر کرنے میں زیادہ جھجھک نہیں ہوتی۔اگر کچھ ہچکچاہٹ ہوسکتی ہے تو خواتین کو ہو سکتی ہے۔لیکن اس عشق میں امرتا پریتم اکیلے ہی اظہا رفرمائے جا رہی ہیں۔ساحر لدھیانوی نے ان کی بات کی کبھی تصدیق یا توثیق نہیں کی۔دوسری بات امرتاپریتم کی طرف سے ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ میں اظہار کی ٹائمنگ ہے۔ان کا بیٹا پیدا ہو چکا تھا جوامروز یا امرتاکی بجائے ساحر لدھیانوی کا ہم شکل تھااور اس ہم شکلی کا چرچا عام ہو رہاتھا۔اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے بات بنائی گئی۔پھر ساحر لدھیانوی ان دنوں میں شہرت کے بامِ عروج پر تھے چنانچہ مشہور و مقبول امرتا پریتم کو ’’رسیدی ٹکٹ‘‘میں اپنے درپیش مسئلے کا جواز بھی گھڑنا پڑا اور یوں ساحر کے نام سے مزید شہرت بھی مل گئی۔ساحر لدھیانوی کے ہم شکل امرتا پریتم کے بیٹے کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ارد گرد کے لوگوں کی کھلے عام باتیں سن کر ہی اس کا یہ حال ہوا تھا۔
امرتا کے بیٹے کے ذہنی عدم توازن کے مسئلہ کی حقیقت معلوم ہونے کے ساتھ باقی خاندان والے بھی امرتا سے زیادہ خوش نہ تھے۔امروز کی بھی امرتا سے کھٹ پٹ ہوتی رہتی تھی۔امرتا کی وفات کے بعد جب حوض خاص والا گھر فروخت کیا گیا اور منہدم کیا جانے لگا تب بعض ادبی لوگوں نے تھوڑا بہت احتجاج کیا کہ اس گھر کو امرتا پریتم کی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جائے لیکن امروز سمیت امرتا کے خاندان کے کسی فرد نے کوئی آواز نہیںاٹھائی ،کوئی اپیل نہیں کی ، کوئی احتجاج نہیں کیا ۔وہ عمارت کے انہدام پر کچھ نہیں بولے۔ درحقیقت وہ اس معاملے میں درپردہ راضی تھے۔
ہمارے افسانہ طراز محققین نے اس محبت کو نہایت پاک محبت بھی کہنا شروع کر رکھا ہے۔کہا گیا کہ امرتا اپنے شوہر سے طلاق لینے کے بعدساحر سے شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن جب انہیں علم ہوا کہ ساحرتو سدھا ملہوترا سے شادی کرنے لگے ہیں تو امرتا نے خاموش رہ کر قربانی دے دی ۔پاکیزگی اور قربانی والی کوئی بات نہیں ہے۔ساحر لدھیانوی اور امرتا پریتم کے درمیان اگر کچھ تعلق تھا تو ویسا ہی تھا جیسا اُس زمانے کی آزادخیال اور بہادر لڑکیوں اور ترقی پسند انقلابیوں کا تھا۔اس میں انسانی اچھا، برا سب شامل تھا،غیر معمولی کچھ نہیں تھا۔ہاں ایک بات غیر معمولی تھی لیکن ہمارے قصہ گو محققین نے اسی بات کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے۔امرتا پریتم نے پریتم سنگھ سے طلاق لے لی۔ساحر لدھیانوی سے عشق بھی فرما لیا۔امروز سے شادی بھی کر لی لیکن اپنے نام سے پریتم سنگھ کو کبھی نہ نکالا۔
یہ کیا ماجرا ہے؟کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے زمانے اور ماحول کے مطابق کچی عمر میں اپنی پہلی شادی سے ناخوش امرتانے خاندان اور سماج سے ٹکر لے کر طلاق تو لے لی لیکن بعد میں انہیں احساس ہوا کہ وہ تو بس سماج سے بغاوت کی دُھن میں اور آزادی کے شوق میں طلاق لے بیٹھی ہیں ورنہ پریتم سنگھ اتنا برا بھی نہ تھا۔یوںباقی کی زندگی امرتا پریتم نے ایک طرف اپنے غلط فیصلے کو حق بجانب ثابت کرنے میں گزار دی اور دوسری طرف پریتم سنگھ کو اپنے نام اور وجود کا حصہ بنائے رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔