افتخار عارف کا نام ہم نے سب سے پہلے پی ٹی وی کے ایک مقبول پروگرام’’کسوٹی‘‘کے حوالے سے سنا تھا،نام کے ساتھ چہرہ بھی دیکھا،وہ نام چندے خوب چلا،خوب چمکا مگر جلدی ہی وہ چہرہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا اور نام پردۂ اخفا میں چلا گیا۔اچھا ہی ہوا۔زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ وہ حوالہ بھی اب یاروں کو کم کم یاد ہے۔اب یاد بھی آتا ہے تو اس طرح جیسے بڑے ہو کر شریف آدمی کو کبھی کبھی اپنے لڑکپن کی غلط کاریاں یاد آجاتی ہیں،مگر آدمی کو غلط کاریوں سے مفر تو نہیں۔اچھا یہ ہے کہ لڑکپن ہی میں آدمی یہ کام کر لے اور آگے گزر جائے۔سو افتخار عارف نے لڑکپن میں یہ کام کیا اور اس طرح کہ چاند چڑھے کُل عالَم دیکھے۔پھر شتابی سے فارغ ہوئے اور لندن چلے گئے،وہاں اردو مرکز میں جا براجے۔وہاں کچھ اردو کی خدمت کی،کچھ یاروں کی۔مگر جہاں یار ہوں گے وہاں اغیار بھی ہوں گے،تو لندن سے انہوں نے جو کمائی کی اس میں دونوں ایسے کتنے نگ انہیں میسر آئے،پھر جس گھوڑے پہ سوار تھے وہ گھوڑا ہی ختم ہو گیا۔ ؎ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے ۔بی سی سی آئی کا بستر لپٹ گیا۔جہاں اتنا کچھ گیا وہاں اردو مرکز بھی گیا۔افتخار عارف کپڑے جھاڑ کر وہاں سے نکلے،پھر واپس پاکستان میں،کچھ وقت مقتدرہ قومی زبان میںگزارا،اب اکیڈمی آف لیٹرز میں براجتے ہیں۔
افتخار عارف سے علیک سلیک تو پہلے بھی تھی مگر ان سے ملاقات اصل میں لندن میں ہوئی۔وہاں میں رسمی طور پر اردو مرکز کا مہمان تھا۔اصل میں مہمان تھا افتخار عارف کا،سو جلدی ہی بستر بوریاہوٹل سے اٹھایااور ان کے گھر آکے پسر گیا۔تب پتہ چلا کہ یہ لکھنئو کا دانہ ہے کہ لندن میں آکر گل و گلزار بن گیا ہے۔خیر لکھنئو سے تو اور کتنے دانے لڑھک کر پاکستان آئے تھے،اب وہ پہچاننے میں نہیں آتے۔اہلِ زبان ہیں مگر زبان انہیں غچّا دے گئی۔تو اب جیسے ہم ایسے ہما شما ویسے وہ لکھنئو والے۔تو اُن کے طفیل ہوا یہ کہ مجھ پر جو لکھنئو کا رعب تھابلکہ رعاب شعاب تھا وہ اُٹھ گیا،مگر اب جب افتخار عارف نے اپنے شہر کے حوالے دینے شروع کیے اور بتانا شروع کیا کہ انہوں نے کیسے کیسے مجتہد،کیسے کیسے شاعر کی آنکھیں دیکھی ہیں،کس کی دیوار سے ان کے گھر کی دیوار ملی ہوئی تھی،کس سے ان کی دانت کاٹی تھی،کیسے کیسے علامہ سے انہوں نے اپنے شعر پر داد لی تھی،اور کس کی زبان پر انہوں نے بصد ادب ٹوکا تھا تو لگا کہ جس رعب سے ہم نکل آئے تھے وہ بحال ہونے لگا ہے۔اب دیکھیے میں تو قصباتی مخلوق ہوں،انیس اور سرشار کے شہرسے جو آ رہا ہواس کے مقابلے میں،میں ایسے حوالے کہاں سے لاتا۔ابھی میں نے ان کا ایک انٹرویو پڑھا ہے جس میں ایسی ایسی شخصیتوں کے حوالے ہیں اور ان سے ان کا ربط ضبط کہ میرے احساسِ کمتری میں ایک دم سے کتنا اضافہ ہو گیا۔ویسے اب افتخار عارف کو حوالوں کی ضرورت نہیں ہے،وہ خود حوالہ بن چکے ہیں۔
اصل میں، میں نے جولکھنئو کے سلسلہ میں حوالہ دیا ہے اس کی ایک وجہ ہے،اُردو یوں تو ہم سب ہی بولتے اور لکھتے ہیں ،مجھ جیسا قصباتی آدمی بھی اس میں ٹوں ٹاں کر لیتا ہے لیکن لکھنئو میں پہنچ کر اس زبان نے کچھ اور ہی شان سے رنگ پکڑا تھا۔لکھنئو والوں نے اس کے لہجوں کو اتنا بنایا سنوارا،اتنا مانجھا،اتنی شائستگی پیدا کی کہ یہ زبان وہاں اچھی خاصی ایک تہذیب بن گئی۔یوں تہذیب کسی زبان کا کرشمہ نہیں ہوتی ،ہاں دوسرے کرشموں کے ساتھ مل کراپنا کرشمہ دکھاتی ہے،مگر کسی گروہ کے ہاتھوں میں آکر اتنا بن سنور جاتی ہے کہ وہ خود ایک تہذیب بن جاتی ہے۔لکھنئو اپنی جگہ ایک تہذیب تھا،اس نے اردو کو اپنے رنگ میں رنگ کراپنی چہار دیواری میں ایک تہذیب بنا لیا۔اب جن شخصیتوں کا حوالہ افتخار عارف دیتے ہیں اُن کا علم وفضل،ان کا ادبی مقام،ان کی شاعرانہ حیثیت اپنی جگہ،میں جس بات سے مرعوب ہوتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان میں ایسی شخصیتیں بھی ہیں جن میں وہ تہذیب بولتی ہے ۔ میں نے ان شخصیتوں کو نہیں دیکھا،جانے وہ کیسے ہوں گے،مگر افتخار عارف کو تو دیکھ رہا ہوں،اور واقعی کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک شخص سے نہیں مل رہا،ایک تہذیب سے مل رہا ہوں۔
دوست تو میرے اور بھی ہیں جن سے گاڑھی چھنتی تھی،ان میں سے کتنے اللہ کو پیارے ہو گئے،جو رہ گئے ہیں ان سے ملاقات کو غنیمت جانتا ہوںمگر افتخار عارف سے ملاقات میں کچھ الگ قسم کا ذائقہ ہے،یہ ایک تہذیب کا ذائقہ ہے،ذائقہ جس کے لیے میں ترستا ہوںوہ یہاں مجھے اس صحبت میں میسر آتا ہے۔
وہی تہذیب جس کا ذائقہ افتخار عارف کی شخصیت میں سمویا ہوا ہے،مجھے لگتا ہے کہ ان کی شاعری میں بھی سرایت کر گیا ہے،بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ جو انہوں نے عقیدتی شاعری کی ہے وہ رسمی نعت، منقبت اور مرثیے سے ہٹ کر خود ایک تہذیب بن گئی ہے،راستہ اس کا بھی لکھنئو سے ہو کر جاتا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ واقعۂ کربلا کی یاد تو اس بر صغیر کے قریے قریے میں منائی جاتی ہے،ذوالجناح اور تعزیے کے جلوس بھی نکلتے ہیں،مجالس بھی ہوتی ہیں اور نوحہ،مرثیہ بھی ہوتا ہے مگر لکھنئو نے جس طرح واقعۂ کربلا کی یاد کو ایک تہذیب کے سانچے میں ڈھالا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔یہ بیان تفصیل چاہتا ہے۔اس وقت میں اس تفصیل میں تو نہیں جا سکتامگر انیس کا ایک شعر سُن لیجیے:
صندل سے مانگ،بچوں سے گودی بھری رہے
یارب،! رسولِ پاکؐ کی کھیتی ہری رہے
یہ ایک بولتا ہوا نقشہ ہے جہاں لکھنئو اور کربلا ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک تہذیب بن گئے ہیں۔
افتخار عارف کی عقیدتی شاعری کی تہ میں یہی تہذیب رچی بسی ہے مگر ایک فرق کے ساتھ۔اصل میں انیس کے بعد ہماری عقیدتی شاعری کی روایت میں ایک اور واقعہ گزر گیا،وہ واقعہ ہے اقبال ؔکا ظہور۔اقبال نے انیسؔ کے شعری بیان سے گزر کر وا قعۂ کربلا کو ایک اور سطح پر جا کر علامتی رنگ میں برتا اور اس کا رشتہ ہمارے زمانے کے ساتھ قائم کر دیا،تو اَب انیسؔ اور افتخار عارف کے درمیان اقبالؔ حائل ہے اور جب ایک بڑا شاعراُسی میدان میں ظاہر ہو جائے جس میں ایک بڑا شاعر گزر چکا ہو توپھروہ کسی بعد میں آنے والے باشعور شاعر کو پچھلے کی طرف جانے کی اجازت نہیں دیتا۔اب اگر آج کا کوئی شاعر اقبالؔ سے کنی کاٹ کر انیس ؔ سے رجوع کرتا ہے تو پھر وہ مجلسوں میں پڑھا جانے والا مرثیہ لکھے گا اور امام بارگاہ سے باہر نہیں آسکے گا۔افتخار عارف کی عقیدتی شاعری نے انیسؔ کو ہضم کرنے کے بعد اس شعور سے رشتہ جوڑا ہے جس نے اقبالؔ کی عقیدتی شاعری کے ساتھ ظہور کیا تھا۔سو وہ ہمارے زمانے کی صورتحال کے ساتھ بھی پیوست ہے اور جو انہوں نے سیکولر روایت میں شاعری کی ہے اس کے ساتھ بھی ہم رشتہ ہے۔مگر لیجیے یہ تو میں افتخار عارف کی شاعری کی طرف نکل آیا،اس طرف آنا تو مقصود ہی نہیں تھا۔سو میں اس بیان کو یہیں روکتا ہوں اور آپ سے رخصت کی اجازت چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔