جیسی بھی ہے اس دنیا سے کٹ کر نہیں رہنا
جب پیار بڑھانا ہے تو ڈٹ کر نہیں رہنا
دُوری بھی مٹانی ہے محبت کے سفر میں
اک حد کو بھی رکھنا ہے،لپٹ کر نہیں رہنا
اپنوں کو تو کچھ اور بھی نزدیک کریں گے
سوچا ہے کہ غیروں سے بھی ہٹ کر نہیں رہنا
لازم ہے سنا جائے کھلے ذہن سے سب کو
اپنے ہی خیالات میں اَٹ کر نہیں رہنا
جتنا ہوں حقیقت میں، وہی دِکھنا ہے مجھ کو
اوروں کے لیے بڑھ کے یا گھٹ کر نہیں رہنا
کچھ اپنے دل و ذہن کو نزدیک کیا ہے
اندر بھی زیادہ ہمیں بٹ کر نہیں رہنا
رہنا ہے بہر حال یہیں پر ہمیں حیدرؔ
دنیا سے مگر اتنا چمٹ کر نہیں رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔